سوال : مقبوضہ کشمیر کے جہاد کے متعلق اسلام کا حکم کیا ہے اس طرح جو جوان جاتے ہیں اور شہید ہوتے ہیں اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

جواب : ذہن میں رکھ لیں، جہاد کا concept لوگوں نے خراب کردیاہے کشمیرہو یا فلسطین اس کی آزادی کی جنگ جو لوگ لڑ رہے ہیں وہ جہاد ہے، مگر اب جو کچھ ہور ہا ہے اب جو کچھ جہاد کے نام پر تنظیمیں کر رہی ہیں، وہ جہاد نہیں ہے اب تو یہ ان کے لئے کڑوروں، اربوں روپے کمانے کا منافع بخش کاروبار ہے۔ وہ لوگوںکو بیچتے ہیں، وہاں فتنہ پروری ہو رہی ہے، مسلک اور عقیدوں کی سرپرستی ہورہی ہے، اور نتیجتا مسلمانوں کے لیے اور مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ کسی بھی جہاد کے لیے حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے فقہ اور شریعت کی کتابوں میں قطعی طورپر درج ہے کہ جہاد تب ہوتاہے جب باقاعدہ آپ لڑائی کے لئے تیار ہوں، ایسا نہ ہوکہ دشمن بہت زیادہ خون خور اور طاقت ور ہے اورآپ کی یہ چھڑچھاڑ امت مسلمہ شدید نقصان پہنچا دے اور آپ اس کا کچھ بگاڑ بھی نہ سکیں، چنانچہ ایسی چھڑچھاڑ ہرگز جہاد نہیں ہوگا اس سے اسلام کو الٹا نقصان ہو گا، جہاد وہ عمل ہوتا ہے جو اسلام کے غلبہ کے لیے کیا جائے تاکہ مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلائیں، جہاں کوئی مقابلہ ہی نہ ہو مثلاً آپ غلیل سے ماریں اور آگے سے بم سے جواب دیں تو یہ عمل جہاد نہیں ہے یہ فساد ہے۔ آپ کے اس عمل سے الٹا امت مسلمہ کو نقصان پہنچے گا، اللہ پاک نے عقل دی ہے

ایک صحابی آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اونٹنی پر، اندر آئے، آقا علیہ السلام نے فرمایا کس پر آئے ہو، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹنی پر آیا ہوں، فرمایا اونٹی کہاں چھوڑ آئے، کہنے لگے، اللہ کے توکل پر چھوڑ آیا ہوں، فرمایا نہیں جا پہلے اس کی ٹانگیں باندھو، پھر توکل کرو، پہلے تدبیر کرو پھر تقدیر کرو، یہ اسلام کی تعلیم ہے، اس لیے اللہ پاک نے قرآن مجید کے ارشاد فرمایا کہ اپنی مقدور بھر طاقت دفاع کی جمع کرو، طاقت ور بنو، اس قابل بنو کہ آپ دشمن پر غلبہ پا سکو، یا مظلوم کو رہائی دلواسکیں، جب یہ چیزیںہوں تو پھر وہ آپ کے لیے جہاد بنتا ہے، حضور تیرہ برس مکہ معظمہ میں رہے پھر چھ برس مدینہ منورہ میں بغیر جہاد کے مدت بسر کی۔ اسلام کو پھیلے ہوئے 19 سال ہوگئے تھے، جہاد کا حکم آیا آخری چارسالوں میں اور اس سے پہلے جو جنگیں ہوئیں، وہ جنگیں کفار مدینہ پر مسلط کرتے تھے اورآقا علیہ السلام اس کا دفاع کرتے تھے، غزوہ بدر دفاع میں ہوا، احد دفاع میں ہوا، غزوہ خندق دفاع میں ہوا، تو جب واپس پلٹے حدیبیہ سے تو آخری تین سالوں میں حکم جہاد آیا کہ اب اجازت دی جاتی ہے۔ جب اسلام طاقت ور ہو گیا، تو جہاد کی اجازت دی گئی۔ چنانچہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اسلام کی جو پوری تعلیم ہے اس کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہوتاہے کہ آپ کے پاس جس سے آ پ جنگ لڑ رہے ہیں اس کے لیے آپ کے پاس کیا طاقت ہے، تیاری کتنی ہے، اس جہاد سے اسلام کو، امت کو، مظلوم کو، غریبوںکوفائدہ پہنچے گا یا آپ کے اس جہاد سے الٹا نقصان ہو جائے گا، اوراگر الٹا نقصان ہو تو ایسے اقدمات کو جہاد نہیں کہتے اورجو لوگ اس صورت حال میں جہاد جہاد کا شور مچاتے ہیں، انھیں اسلام کے حروف تہجی کا بھی علم نہیں ہے وہ صرف اپنے کاروبار کے لیے چندے لیتے ہیں، اور وہ نوجوان نسل کی برین واش کرکے انتہاپسند بنوا کر مرواتے ہیں، اس طرح الٹا اسلام کونقصان پہنچاتے ہیں، ہر دور میںجہاد کا ایک تصور ہوتا ہے آج جہاد کے لیے آپ سب سے پہلے سائنس اور ٹیکنالوجی حاصل کریں، امت کو علم میں مضبوط کریں اکنامی میں مضبوط کریں، یہ جہاد ہے اوراپنے آپ کو اتنامضبوط کریںکہ پھرآپ اپنا دفاع بھی کر سکیںاور کسی مظلوم کی مدد بھی کرسکیں، تو یہ concept ہے جہاد کا اگروہ نہ ہو توپھروہ فساد بن جاتا ہے۔

پیغام

اگر ہم سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح سامنے آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری زندگی دفاع کرتے ہوئے گذاری اور کبھی بھی مخالف پر جنگ مسلط نہیں کی۔ یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اسلامی جدوجہد کے مکی دور میں مسلمانوں کو اپنی زندگیوں کے دفاع میں بھی ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس مکی دور میں جب جہاد کے باب میں پانچ آیات قرآنی نازل ہوئیں مسلمانوں پر کفار نے عرصہ حیات تنگ کیا ہوا تھا۔ وہ طرح طرح کی اذیتوں اور مصائب سے دو چار تھے۔ ظلم و بربریت کے اس دور میں بھی اہل اسلام کو اپنے دفاع میں لڑنے کی بجائے صبر کی تلقین کی گئی یہاں تک کہ اللہ تبارک و تعالیٰ مسلمانوں کے لئے آسانی کا کوئی راستہ پیدا فرما دے۔ جب کفار مکہ کی جارحیت اور ظلم و ستم حد سے بڑھ گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کو اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ کافروں کے مسلسل جبر و استبداد سے بچنے کی خاطر حبشہ ہجرت کرجائیں حبشہ اس وقت ایک عیسائی ریاست تھی اور اس کا حکمران نجاشی بھی عیسائی تھا۔

اسلامی تاریخ کی تمام کتابوں میں یہ بات متفقہ طور پر درج ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے اصحاب کو حبشہ کے لئے روانہ فرما رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ملک حبشہ چلے جاؤ وہاں عیسائی حکمران نجاشی ہے۔ تم میں کسی کو بھی حبشہ میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ تمہارے ساتھ وہاں کسی سے کوئی ناانصافی نہیں کی جائے گی۔ تمہاری زندگی اور جملہ حقوق محفوظ ہوں گے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عیسائی مملکت اور اس کے عیسائی حکمران کی بہت تعریف کی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس سنت مبارکہ میں ہمارے لئے بہت بڑا سبق پنہاں ہے۔ وہ اصحاب حبشہ میں بطور مہاجر زندگی بسر کر رہے تھے وہ وہاں کے اصل باشندے نہیں تھے۔

میں کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت مختلف ممالک سے آنے والے مسلمان خواہ وہ برطانیہ، نارتھ امریکہ یا دنیا کے کسی ملک سے بھی ہجرت کرکے یہاں آئے ہیں اور آکر یہاں کی شہریت اختیار کر لی تو اب وہ اسی ملک کے شہری ہیں۔ اب ان کے مفادات اسی ملک سے وابستہ ہیں اس لئے انہیں خود کو اسی ملک کے پر امن شہری بن کے رہنا چاہیے۔ جس وقت حبشہ میں مسلمان پر امن زندگی بسر رہے تھے اور انہیں وہاں کوئی مشکل در پیش نہیں تھی تو اسی دوران حبشہ میں نجاشی شاہ حبشہ کے خلاف بغاوت رونما ہوگئی۔ مسلمانوں نے نجاشی کا مکمل ساتھ دیا۔ اگر اس وقت مسلمان باغیوں سے مل جاتے تو یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان مبارک کی صریحاً خلاف ورزی اور گستاخی ہوتی اور اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہوتا۔

پس اے میرے بھائیو اور بہنوں آپ خواہ نارتھ امریکہ، فرانس، اٹلی، یورپ، ناروے، ڈنمارک یا دنیا کے کسی ملک سے بھی ہجرت کرکے یہاں عارضی طور پر رہائش پذیر ہیں یا یہاں کی مستقل شہریت حاصل کر لی ہے آپ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس ملک کے وفا شعار شہری بن کے رہنا چاہئے۔ اب اسی سوسائٹی سے آپ کے مفادات وابستہ ہیں اور خود کو اس ملک کے قانون پر عمل کرنے والے شہری کے طور پر ثابت کرنا ہے۔ یہ وفاداری اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہاں آپ کو مختلف jobs میسر ہیں جن کے عوض آپ کو معقول تنخواہیں ملتی ہیں۔ آپ کو یہاں معاشی فوائد حاصل ہیں، پنشن، صحت کاروبار، ذاتی تحفظ، مذہبی آزادی، جیسی جملہ مراعات حاصل ہیں۔ آپ کو یہاں مساجد بنانے کی آزادی ہے۔ حج پر جاسکتے ہیں، روزے رکھ سکتے ہیں، مختلف اجتماعات منعقد کرسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ یہاں اپنے اسلامی چینل تک Install کرسکتے ہیں اب اس کے سوا کون سی سہولت ہے جو آپ کو یہاں میسر نہیں، بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ آپ کو وہ سب کچھ یہاں حاصل ہے جن کا آپ اپنے اسلامی ممالک میں تصور بھی نہیں کرسکتے تو بے جا نہ ہوگا۔ ان مغربی ممالک کے مخصوص اور امتیازی دستوری کردار کے باعث مسلمانوں سمیت سب مذاہب کے ماننے والوں کو یہاں بلا تفریق برابر کے حقوق حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنا شخصی تحفظ بھی حاصل ہے۔ ان ترقی یافتہ ممالک کے اسی امتیازی کردار کے باعث یہاں بلا تفریق سب کی زندگیاں محفوظ ہیں۔ سب کو مذہبی آزادی حاصل ہے ہر کوئی اپنی اپنی کلچرل values سے لطف اندوز ہونے میں پوری طرح آزاد ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی توفیق اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے جو فہم مجھے حاصل ہے اور قرآن و سنت کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے پوری ذمہ داری سے اس امر کا اعتراف کرتا ہوں کہ یہ تمام مغربی ممالک نارتھ امریکہ اور یورپی ممالک سمیت جہاں آپ کی زندگیاں مکمل طور پر محفوظ ہیں اور شخصی آزادی کے جملہ حقوق آپ کو حاصل ہیں یہ سب حقیقی اسلامی ممالک کی مانند ہیں۔ آپ پر واجب ہے کہ اس سوسائٹی میں خود کو یہاں کے قوانین پر عمل پیرا ہونے والے پر امن شہری ثابت کریں۔

جب میں آپ کو یہ نصیحت کر رہا ہوں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں یہ سب کچھ کسی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کررہا ہوں۔ میں نے آج تک دنیا کے کسی ملک سے کوئی مالی منفعت حاصل نہیں کی۔ مجھے اور میری تحریک منہاج القرآن کو برطانیہ، نارتھ امریکہ اور یورپ سمیت دنیا کے کسی ملک نے کبھی کوئی مالی مدد نہیں کی۔ ہم نے آج تک کسی سے ایک پائی تک دین کے نام پر حاصل نہیں کی۔ ہمارے لئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عنایات ہی کافی ہیں۔

جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں مجھے کسی حکومت یا کسی محکمے کی خوشنودی قطعاً درکار نہیں مجھے صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی درکار ہے یہی اسلام کی حقیقی تعلیمات ہیں۔ میری یہی کوشش ہے کہ انسانیت کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کروں اس کے ذریعے میں مسلمانوں کی نوجوان نسل کو خصوصی طور پر اور دنیا بھر کے نوجوانوں کو عمومی طور پر پھر سے ان کی معمول کی زندگی کی طرف لانا چاہتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ مسلمان نوجوان نسل پر امن اور پاکیزہ کردار کی حامل ہو۔ وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو چھوڑ کر اپنے شب و روز امن عالم کی بحالی کے لئے وقف کر دیں۔ اسلام کے احیاء اور امن کے لئے کوشاں ہو کر ہی ہم بنی نوع انسان کی خدمت کرسکتے ہیں۔

ہمیں ہمیشہ اتحاد اور انسانیت کی خدمت کی کوشش کرنا چاہیے تاکہ اسکے نتیجے میں ساری دنیا میں امن کا ماحول پیدا ہو۔ ہمیں نفرت، جنگ و جدال اور باغیانہ طور پر طریقوں سے بہر صورت نجات حاصل کرنا ہے۔ یہ وقت دوستی، برداشت، اتحاد، محبت، صبر، باہمی بین المذاہب مکالمے اور خدمت خلق کا متقاضی ہے۔

اس کردار سازی کے حصول کے لئے ہی الھدایہ جیسے اجتماعات منعقد کیئے جاتے ہیں۔ تحریک منہاج القرآن کا یہی بنیادی مقصد ہے میری جملہ کتب اور خطابات کا بھی واحد مقصد امن اور روحانیت کی بحالی ہے۔

آخر میں ایک بار پھر آپ کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں کہ جب جہاد کے بارے میں پانچ آیات قرآن حکیم میں نازل ہوئیں تو اس وقت عملا مسلمانوں کو اپنے ذاتی دفاع کے لئے بھی ہتھیار اٹھانے کی اجات نہیں تھی اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک ہتھیار اٹھا کر قتال کرنا جہاد کی ضروری شرائط میں سے نہیں ہے۔ اسلام میں جب کبھی بھی ہتھیار اٹھایا گیا تو ایسا صرف ذاتی دفاع کے لئے کیا گیا۔

یہان کچھ ویڈیو کلپس دیئے جا رہے ہیں، جو ان کے نکتہ نظر کو واضح انداز مین پیش کرتے ہیں:

ایک امریکی یونیورسٹی میں لیکچر کا شارٹ کلپ

ایک صحافی کے پوچھے گئے سوال کا خوبصورت جواب:

ایک اور کلپ

ہدایہ کیمپ کے دوران یوتھ سے خطاب سے لیا گیا کلپ

ایک اردو کلپ

ڈرون حملوں کی بابت نکتہ نظر پر مبنی کلپس:

لیکچرز میں سے ایک کلپ:

مبشر لقمان کو دیئے گئے انٹرویو سے اقتباس”

جو احباب اس ایشو کو مزید تفصیل سے جاننا چاہیں وہ ذیل میں دیئے گئے لنک سے دہشت گردی کے خلاف تاریخی فتوی کا مطالعہ کریں۔ یہ فتوی اپنے موضوع پر ایک جامع انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے، جو قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں اس مضمون کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے۔

دہشت گردی اور فتنہ خوارج، مبسوط تاریخی فتوی

اسلام میں انتہا پسندی کے خلاف ڈاکٹر طاہرالقادری کی جدوجہد

تاریخ عالم متکبر حکمرانوں کی چہرہ دستیوں سے بھری پڑی ہے۔ مخالف قوم کو تہہ تیغ کئے بغیر ان کے ہوس اقتدار کی آگ ٹھنڈی نہ ہوتی یہاں تک کہ مخالفین کے سروں سے اپنے محل تعمیر کرتے، ظہور اسلام سے قبل انسانی خون کی ارزانی اور پھر مسلمان حکمرانوں کے دور میں سقوط بغداد اور ماضی قریب میں دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کے دو شہروں ناگا ساکی اور ہیرو شیما میں لاکھوں کروڑوں انسان کا قتل عام اس درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایسے انسانیت سوز ماحول میں دین اسلام نے دنیا کو امن و آتشی کی عظیم نعمت سے روشناس کیا۔ ریاست مدینہ میں قائم اسلامی حکومت نے اپنے عمل سے امن کے اس پودے کی آبیاری کی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم رہنمائی میں کفار سے لڑی جانے والی تمام جنگیں دفاعی تھیں۔ غزوہ خندق سمیت تمام جنگیں مدینہ منورہ کے باڈر پر لڑی گئیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کفار مکہ کی فوج ہر بار چارج کی حیثیت سے ریاست مدینہ پر حملہ آور ہوتی۔ کفار کی کوشش ہوتی کہ کسی طرح مدینہ منورہ میں داخل ہوکر اس پر قابض ہو جائیں۔ مسلمانوں نے ہر بار دفاع کرنے پر اکتفا کیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس وقت کی ریاست مدینہ کا دفاعی طریقہ کار سراسر UNO کے موجودہ چارٹر کے عین مطابق نظر آتا ہے یہ ہجری کا ساتواں سال تھا جب قرآن حکیم میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں حکم دیا گیا۔

وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْاط اِنَّ اﷲَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَo

(البقرۃ، 2: 190)

’’اور اﷲ کی راہ میں ان سے (دفاعاً) جنگ کرو جو تم پر جنگ مسلط کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بے شک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتاo‘‘

یہاں اس امر کی خصوصی طور پر توجہ مبذول کی گئی ہے کہ ذاتی غرض و غایت سے بے نیاز ہوکر محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے حملہ آور ہونے والوںسے دفاعی جنگ لڑو۔ اور اس بات کی بھی خصوصی تاکید کی گئی کہ ایسا کرتے وقت حدود سے ہرگز تجاوز نہ کرو۔ حد سے تجاوز نہ کرنا صرف دفاعی جنگ میں ہی ممکن ہے کیونکہ کسی دوسرے پر حملہ کرنا تو سراسر جارحیت کے ذیل میںآتا ہے۔ بدقسمتی سے ان الفاظ کو بڑے غلط معنی پہنا دیے گئے ہیں۔ اور ان الفاظ کی غلط تشریح کرتے ہوئے Defencive war کی بجائے اسے Offensive war سمجھ لیا گیا ہے۔

یہاں اس امر کی خصوصی طور پر توجہ مبذول کی گئی ہے کہ ذاتی غرض و غایت سے بے نیاز ہوکر محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے حملہ آور ہونے والوںسے دفاعی جنگ لڑو۔ اور اس بات کی بھی خصوصی تاکید کی گئی کہ ایسا کرتے وقت حدود سے ہرگز تجاوز نہ کرو۔ حد سے تجاوز نہ کرنا صرف دفاعی جنگ میں ہی ممکن ہے کیونکہ کسی دوسرے پر حملہ کرنا تو سراسر جارحیت کے ذیل میںآتا ہے۔ بدقسمتی سے ان الفاظ کو بڑے غلط معنی پہنا دیے گئے ہیں۔ اور ان الفاظ کی غلط تشریح کرتے ہوئے Defencive war کی بجائے اسے Offensive war سمجھ لیا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جنگ کی حالت میں بھی مسلمان مجاہدین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ متعین حدود سے آگے نہ بڑھیں۔ بخاری و مسلم اور صحاح ستہ کی تمام کتب حدیث میں یہ تمام حدود صریحاً موجود ہیں کہ جنگ کے دوران عورتوں، بچوں یہودی اور عیسائی مذہبی لیڈروں، پادریوں، کسانوں،کاروباری لوگوں (جو سوسائٹی میں معاشی ضرورتوں کے کفیل ہیں)، سفیروں اور پند و نصائح کرنے والوں کو قتل نہ کیا جائے۔ حضور نبی اکرمa کی صریح اور واضح ہدایات احادیث اور روایات کی سینکڑوں کتب میں موجود ہیں۔ حضور نبی اکرمa کے بعد چاروں خلفاء راشدین اپنے اپنے دور حکومت میں ان پر عمل پیرا رہے۔ چنانچہ ان احکامات کی روشنی میں ممکن ہی نہیں کہ کوئی مسلمان غیر مسلموں کی عبادت گاہوں، گرجا گھروں اور مکانات کو تباہ کرے۔ ان کے کھیتوں، درختوں کو جلانے یا ان کے جانوروں کا ذبح کرنے کی قطعاً اجازت نہیں تھی الا یہ کہ خوراک کی شدید قلت پیدا ہوجائے۔ اسی طرح سول آبادی اور لڑائی میں حصہ نہ لینے افراد پر بھی حملہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ قرآن و سنہ کے مطابق جہاد کی ضروری شرائط ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپa کے بعد چاروں خلفاء راشدین اور اسلامی ریاست کی مقتدر سیاسی شخصیات سمیت تمام حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی اور جعفری فقہاء نے 1400 سال سے ان احکامات پر عمل کیا ہے، تو اب یہ کیونکر اجازت مل سکتی ہے کہ وہ ان اسلامی احکامات سے روگردانی کرتے ہوئے سویلین آبادی اور لڑائی نہ لڑنے والے نہتے شہریوں پر دہشت گردانہ قتل و غارت گری کا بازار گرم کرے جبکہ ایسا کرنا تو دوران جنگ بھی جائز نہیں۔ چنانچہ اسلام مسلمانوں کو کیسے اجازت دے سکتا ہے کہ وہ اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں، خودکش حملوں، بم بلاسٹ سے بے گناہ عوام کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگیں، دوسرے ممالک کے سفارت خانوں کو بموں سے اڑاتے پھریں اور اغوا برائے تاوان کی سرگرمیوں میں ملوث ہوں۔ ایسا کرنے والے قوم کے مجرم ہیں اور ان کی یہ سرگرمیاں صریحاً گھناؤنے جرائم ہیں۔ ایسا کرنے والے بدقسمتی سے طاغوت کے ہاتھوں Highjack ہوچکے ہیں۔ طاغوتی طاقتیں ایسے نقطہ نظر کو اسلام اور جہاد کے نام پر پھیلاتی ہیں۔ یہ باطل نظریات خبریں بن کر عام ذہن کو متاثر کرتی ہیں۔ یہی چیزیں، نظریات کا روپ دھار لیتی ہیں اس سے ایک خاص mind set تیار ہوجاتا ہے۔

یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ جارحیت کے خلاف اپنے دفاع کی خاطر لڑنا یا حفظ ماتقدم کے طور پر قدم اٹھانا ایک جدا بات ہے۔ اپنے دفاع میں لڑی جانے والی شرعی جنگ کی بھی حدود و قیود ہیں جن کو کسی صورت میں بھی توڑا نہیں جاسکتا۔ اسلام میں جنگ لڑنے کی کئی اخلاقی حدیں ہیں جو ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اس ضمن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باقاعدہ تحریری ہدایات جاری فرمائیں۔ خلفاء راشدین نے خود ان پر عمل کیا اور آگے امت کو ان سے آگاہ فرمایا۔ جس میں قیام امن کی بحالی اور باہمی اتفاق کو سر فہرست رکھا گیا ہے مثلاً دوران جنگ بھی طے شدہ امن معاہدے کا احترام کیا جائے گا جسے کسی صورت میں بھی توڑا نہیں جائے گا۔ نہ جانے یہ موجودہ دہشت گردانہ ذہنیت کہاں سے درآمد کرلی گئی ہے۔ ہم نے اپنے فتویٰ میں بڑی تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی ہے کہ یہ ہرگز اسلامی سوچ نہیں ہے بلکہ یہ موجودہ دہشت گردی خارجیت کا تسلسل ہے۔

خارجی گروہ چوتھے خلیفہ راشد حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں نمودار ہوا۔ اس گروہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے خلاف ہتھیار اٹھائے اور لا حکم الاللہ کا نعرہ بلند کیا کہ ہم زمین پر خدا کی حکمرانی چاہتے ہیں۔ یہی نعرہ اب دہشت گردوں کا ہے کہ ہم دنیا میں اللہ کا نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اور وہ تمام مسلماں جو جمہوریت اختیار کئے ہوئے ہیں سب کافر ہیں چنانچہ خارجیوں کے نعرہ لا حکم الا اللہ کی طرح یہ بھی اپنی محدود مخصوص سوچ کو طاقت اور دہشت گردی کے زور پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مقدسہ میں ہی خارجیت کے فتنے کی نشان دہی فرما دی تھی کہ قیامت تک یہ لوگ وقتاً فوقتاً مسلمانوں میں نمودار ہوتے رہیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صریحاً فرما دیا تھا کہ یہ لوگ اسلام سے بالکل خارج ہیں۔ ان کا دین اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہوگا اور آپ نے ان کی واضح نشانیں بھی بیان فرمائی جن میں سے چند ایک اس لیے بیان کی جارہی ہیں کہ ان کے شناخت کرنے میں کوئی مغالطہ نہ رہے۔

  1. یہ زیادہ تر نوجوان ہوں گے۔
  2. یہ نوجوان Brain wash ہوں گے یعنی انہیں منظم طریقے سے اصل عقیدے سے جدا کر کے نفسیاتی طور پر مخصوص عقیدے کا پیروکار بنا دیا جائے گا۔
  3. ان کی گھنی اور لمبی داڑھی ہوگی یہ شرق سے نمودار ہوں گے
  4. ان کی شلوار یا تہبند نصف پنڈلیوں سے اونچی ہوگی۔

ان کی یہ ظاہری وضع قطع دراصل ان کی نام نہاد مذہبی انتہا پسندی کو ظاہر کرتی ہے چنانچہ ان کے نعرے دلفریب ہوں گے۔ وہ تلاوت قرآن اور ادائیگی صوم و صلوٰۃ اور دیگر عبادات میں شدید ہوں گے۔ یہ قرآن کے ٹیکسٹ سے حدیث و سنت رسول کی مدد کے بغیر خود ہی احکامات اخذ کریں گے اور آیات قرآنی کو ایسے بیان کریں گے جیسے وہ سب ان کی حمایت میں اتری ہیں جبکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہوگی۔

آپa نے فرمایا کہ ان کے نعرے اور باتیں عام لوگوں کے لئے بڑی متاثر کن مشہور اور دلکش ہوں گی، آج کل یہی کچھ ہو رہا ہے۔ عوام ان کے نعروں اور ظاہری دین داری سے متاثر ہو رہے ہیں۔ مسلمان حکومتیں خوف زدہ تماشائیوں کی طرح خاموش بیٹھی ہیں۔ مسلم سوسائٹی کے خلاف ان کی مجرمانہ دہشت گردانہ سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اب اہل حق کی ذمہ داری ہے کہ ان کے مقابل کھڑے ہوکر اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ان خوارج کی زبانیں بظاہر اچھے الفاظ استعمال کریں گی اور خود کو با عمل مسلمان کے طور پر پیش کریں گے لیکن درحقیقت وہ بدترین مخلوق ہوگی۔ وہ بلا وجہ لوگوں کو قتل کریں گے اور ان کے خلاف اُٹھ کر جنگ کرنے والے قیامت کے دن اجر پائیں گے۔

بخاری و مسلم اور صحاح ستہ کی تمام کتب حدیث نے خوارج کی حقیقت کو کھول کھول کر بیان کردیا ہے۔ چنانچہ ان کے خلاف برسر پیکار ہونا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی سنت ہے۔ یہ کہنا کہ خارجیت تو ایک مخصوص گروہ کا نام تھا جو خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں نمودار ہوا۔ یہ لوگ تو پہلی دو صدیوں تک متحارب رہے اب ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ سراسر غلط سوچ ہے کیونکہ حضور نبی اکرمa نے فرمایا کہ یہ گروہ وقتاً فوقتاً حضرت عیسیٰ e کے دوبارہ ظہور تک کم و بیش 20 مرتبہ نمودار ہوتا رہے گا اور وہ جب بھی نمودار ہوگا قتل کردیا جائے گا یا اسے ملک سے باہر نکال دیا جائے گا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ دہشت گردوں کا ان سے کیا تعلق ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ یہ انہیں خارجیوں کا تسلسل ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے دوران ہتھیار لے کر ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے تمام دانشور و فقہاء اور مقتدر اسلامی شخصیات جن میں امام عاجوری، امام شہر ستانی، علامہ ابن تیمیہ، امام نبوی، امام عسقلانی، علامہ بشیر احمد عثمانی شامل ہیں ان سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ خارجی صرف وہی مخصوص ٹولہ نہیں تھا جس نے حضرت علی کے خلاف ہتھیار اٹھائے بلکہ یہ اس مخصوص ذہنیت کے حامل لوگ ہیں جو بے گناہ عوام کے قتل کو جائز قرار دیں۔ جو حکومت وقت کے خلاف بغاوت کریں اور اپنے مخصوص مقاصد کے حصول میں قتل و غارت اور خون ریزی کو جائزسمجھیں اور یہ خیال کریں کہ حکومت کرنے کا حق صرف انہیں حاصل ہے۔ صرف وہی خدا کی حکومت کو دنیا میں نافذ کرسکتے ہیں اور اقتدار کے حصول میں ان کی مدد نہ کرنے والے سب بے گناہ واجب القتل ہیں ایسی سوچ کے حامل لوگ خارجی ہیں چنانچہ خارجیت تو دراصل ایک ذہنیت اور سوچ کا نام ہے اور اس فکر پر عمل کرنے والے انتہا پسند اور دہشت گرد سب خارجی ہیں۔