پاکستان کے معروضی سیاسی حالات کو بدلنے اور عوام النّاس کو انقلاب آشنا کرنے کے لئے قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اسلام آباد میں تاریخ ساز دھرنا دیا جس کے اثرات
بڑی تیزی کے ساتھ قوم کے سامنے آرہے ہیں مگرجونہی صرف اسلام آباد میں دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تو انقلاب مخالف قوّتیں پوری قوت اور تیاری کے ساتھ عوام النّاس کو گمراہ کرنے
، انقلاب سے مایوس کرنے اور انقلابی قیادت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہیں، طرح طرح کے الزامات لگاتے ہوئے دھرنوں کو ناکام ثابت کرنے کا منفی پرو
پیگنڈا جاری ہے۔ PAT اور قائد انقلاب کی اس انقلابی جدوجہد پر ہونے والے اعتراضات کا محاکمہ میرا موضوع ہے۔
معترضین و ناقدین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ دھرنا کچھ اندرونی اور بیرونی قوتوں کے کہنے پر دیا گیا، ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو استعمال کیا گیا، دھوکے سے اسلام آبا د بلایا گیا، تحریک
کے معصوم اور بیگناہ لوگ مروائے اور بلانے والوں کے مقاصد جب پورے ہوگئے تو ان کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا۔
یہ اعتراض اور تنقید نہایت لغو اور حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ یاد رہے کہ قائد انقلاب نے کسی کے کہنے پر آ کر دھرنے دینے یا ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا بلکہ یہ تحریک کی قیادت ک
ے ساتھ مکمل مشاوت کے بعد ان کا اپنا آزادانہ فیصلہ ہے۔ اہل حق ہمیشہ حق کی خاطر ہی ہرقدم اٹھاتے ہیں، ان کے اندر اور باہر بھی ایک ہی ذات جلوہ گرہوتی ہے،وہ اسی ذات حق کی خاطر جیتے
اور مرتے ہیں۔وہ ہر فیصلہ زمینی حقائق اور دستیاب وسائل کی روشنی میں کرتے ہیں۔ آیئے سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس ضمن میں رہنمائی لیتے ہیں:
صفر4 ہجری میں نجد کے ایک قبیلے کاسردار ابوالبراء مدینہ طیبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میرے قبیلے کے لوگ بھی میرے پیچھے ہیں۔آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ اپنے قراء اور علماء صحابہ میرے ساتھ بھیجیں تاکہ وہ وہاں لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین سکھاسکیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھ
ے اہل نجد سے کچھ خدشہ ہے۔ اس نے کہا: میں ضامن ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چالیس یا ستر جلیل القدر تربیت یافتہ صحابہ اس کے ساتھ بھیج دیئے۔ بئرمعونہ کے مقام پر ماسوا
ایک کے باقی سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دھوکے سے شہید کر دیا گیا۔
دوسرا واقعہ بھی ماہ صفر 4 ہجری کا ہے کہ قبیلہ عضل اور قارہ کی ایک مشترکہ جماعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ ہمارے بہت سے لوگ اسلام کے دائرے میں آچکے ہیں مگر ان کی مزید تعلیم و تربیت کے لئے کچھ تربیت یافتہ صحابہ درکار ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی درخواست پر دس جلیل القدر تربیت یافتہ صحابہ کرام کو بھیجا مگر وہ دس کے دس شہید کر دیے گئے۔ ان دوواقعات کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنا شدید دکھ اور صدمہ پہنچا کہ کئی دن نماز میں ان قبائل پر لعنت کرتے رہے۔
سوال یہ ہے کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ قدم کس مقصد کے لئے اٹھایا اور آگے اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ ان واقعات سے کوئی بدبخت معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لا علمی اور بے خبری ثابت نہ کرے بلکہ یہ تعلیم امت و انسانیت کے لئے ایک اصول اور ضابطہ دینا تھا کہ اہل حق ہمیشہ اپنے مشن کے فروغ کے لئے اپنی اندرونی سچائی اور خلوص کے ساتھ قدم اٹھاتے ہیں۔ خدانخواستہ نتیجہ اگر برعکس نکلے تو اس میں اہل حق کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
بلا تشبیہ و بلا مثال قائد انقلاب بھی فقط اپنا فرض نبھا رہے ہیں اور اس عظیم مصطفوی مشن کی تکمیل کے لئے خلوص اور للہیت کے جذبے کے ساتھ اس سفر پر رواں دواں ہیں۔ جو دانش، فہم و فراست اور نورایمان اہل حق کے پاس ہے اس کا عشرعشیر بھی کسی مکّار، عیّار، دھوکہ باز اور باطل پرست کو نصیب نہیں ہوسکتا۔ یہ معرکہ حق و باطل جاری ہے اور جاری رہے گا۔
یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ بعض فیصلوں کے نتائج فی الفور نہیں ملتے بلکہ تھوڑا وقت لیتے ہیں مگر جیسے ہی عام لوگ، غیر جانبدار اور باشعور لو گ سوچتے ہیں اور انہیں سمجھ آنے لگتی ہے کہ یہ سب کچھ تو ہمارے لیے کیا جارہا تھا تو پھروہ لوگ نہ صرف اس شخصیت سے محبت و عقیدت رکھتے ہیں بلکہ اس کی جدوجہد میں عملی طور پر بھی شریک ہو جاتے ہیں۔ تاریخ میں کتنے ایسے محسن انسانیت گزرے ہیں جن کو نا سمجھی کی وجہ سے لوگوں نے قتل کر دیا لیکن جب اس کی حقیقت دنیا پر آشکار ہوئی تو نہ صرف اسے اپنا ہیرو قرار دے دیا بلکہ اپنی قوم کی تعمیر میں اس کے افکار کو بنیاد کا درجہ دے دیا۔
قائد انقلاب نے 23 دسمبر 2012ء سے لیکر 17 جنوری 2013ء تک جو اقدام اٹھائے, اس کی سمجھ پوری پاکستانی قوم سے لیکر بڑے بڑے سیاستدانوں اور دانشوروں کو مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد آئی اور ہر ایک کو کہنا پڑا کہ ’’ڈاکٹر طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے‘‘۔ اسی طرح جو شعور اس دھرنے میں قوم کو دیا گیا ہے، جب اس کے نتائج قوم کے سامنے آئیں گے تو یہ حکمران اور ان کا ظالم نظام خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے اور ہر ایک کی زباں پر ہوگا۔ ’’گو نواز گو‘‘، ’’گو نظام گو‘‘
قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جب نئی حکمت عملی کے تحت اسلام آباد سے پاکستان عوامی تحریک کا دھرنا ختم کیا اور نئی منصوبہ بندی کے تحت ملک بھر میں فکر انقلاب کو عام کرنے کے لیے جلسے شروع کیے تو انقلاب دشمن قوتوں نے عوام الناس کے ذہنوں میں یہ تاثّر دینے کی کوشش کی کہ معاذاللہ یہ دھرنا نا کام ہوگیا ہے اور اب یہ انقلاب نہیں آئے گا۔ اس منفی پراپیگنڈہ کی وجہ سے بہت سے معصوم ذہن بھی متاثّر ہونے لگے اور یہ خیال کرنے لگے شاید اب انقلاب نہیں آئے گا اور ہماری سب قربانیاں ضائع ہوجائیں گی۔
یاد رکھیں! ایسا کبھی نہیں ہو سکتا، یہ نظام قدرت کے خلاف ہے، اللہ تعالیٰ کسی انسان کی محنت اور قربانی کو ضائع نہیں کرتا بلکہ اسی دنیا میں اس کا پھل عطا کرتا ہے۔ یہ پھل کبھی اسی وقت، کبھی تھوڑی دیر کے بعد اور کبھی ایک عرصے کے بعد عطا کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی. وَاَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرٰی. ثُمَّ يُجْزٰهُ الْجَزَآءَ الْاَوْفٰی
وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی. وَاَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرٰی. ثُمَّ يُجْزٰهُ الْجَزَآءَ الْاَوْفٰی.
’’اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اﷲ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)۔ اور یہ کہ اُس کی ہر کوشش عنقریب دکھا دی جائے گی (یعنی ظاہر کر دی جائے گی)۔ پھر اُسے (اُس کی ہر کوشش کا) پورا پورا بدلہ دیا جائے گا‘‘۔
(الطور: 39.41)
منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کی قیادت اور کارکنوں نے جو قربانیاں دی ہیں یہ کبھی ضائع نہیں ہو سکتیں، یہ نظام قدرت و عدل کے خلاف ہے، اس میں کسی الوہی حکمت عملی کے تحت تاخیر کردی گئی ہے۔ ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں ہے اس لئے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی کئی بار جنگ کا منصوبہ بنایا،دین دشمن قوتوں پر حملہ کیا مگر فوراً فتح نہ ہوسکی، آپ واپس تشریف لائے اور نئی حکمت عملی کے تحت نئی منصوبہ بندی کی۔
٭ آٹھ ہجری میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مکہ فتح کیا، پھر بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ حنین کو فتح کیا، اس کے بعد ماہ شوّال میں طائف پر حملہ کیا اور اٹھارہ سے لیکر چالیس دن تک محاصرہ کیا مگر کامیابی نہ ہوسکی بلکہ بارہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شہید ہوگئے۔بظاہر وقتی کامیابی نہ دیکھ کر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محاصرہ ختم کرنے اور واپس جانے کا اعلان کردیا۔ کئی صحابہ کرام متردّد بھی ہوئے، کئی کا دل دکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صبح ایک اور کوشش کر کے دیکھ لو، ممکن ہے کامیابی ہو جائے۔اگلے دن صبح جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حملہ کیا تو پھر بہت بڑا نقصان ہوا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اب ہمیں واپس چلے جانا چاہیے، مزید نقصان نہیں کرنا چاہیے۔ واپسی کا اعلان ہوا، آپ ہزاروں صحابہ کرام کے ساتھ واپس تشریف لے آئے مگر اس موقع پر طائف فتح نہ ہوسکا۔
کہنا یہ مقصود ہے کہ فوری طور پر کامیابی کا نہ ملنا ہرگز شکست نہیں کہلاتا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر پیش آنے والے واقعات بھی حکمت عملی کی تبدیلی اور شکست و فتح کے تصور کو واضح کرتے ہیں۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو کفار مکہ سے مذاکرات کے لئے بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے شہید ہونے کی خبر ملی۔ اس پر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بیعت لی، جسے بیعت رضوان کہا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر لڑائی نہیں کرنا تھی،لوگوں کو شہید نہیں کروانا تھا تو بیعت کیوں لی؟اور گر سب لوگ شہادت کیلئے بیعت کرچکے تھے تو پھر مذاکرات کیوں کیے؟ اتنی کمزور شرائط پر معاہدہ صلح کیا، کیا یہ کسی ڈیل کا نتیجہ تھا یا کسی عظیم حکمت عملی کا پیش خیمہ؟ بعد کے حالات و واقعات نے کیا ثابت کیا؟ ڈیل یا عظیم حکمت عملی؟
اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کے نتیجے میں فتح مبین (فتح خیبر، فتح مکہ) کی خوشخبری سنادی حالانکہ کفارمکہ اسے مسلمانوں کی بہت بڑی شکست کہہ رہے تھے اور مسلمانوں کو عمرہ کے بغیر واپس بھیجنے کو اپنی فتح تصور کر رہے تھے۔ ان کی یہ فتح دو سال کے اندر اندر خاک میں مل گئی اور مکہ فتح ہوگیا۔
٭ سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک اور مثال کو دیکھتے ہیں کہ 9 ہجری کو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع ملی کہ قیصر روم، مدینہ طیبہ پر بہت بڑے حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس اطلاع پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بہت بڑے لشکر کی تیاری حکم دیا،جس کے لئے بہت بڑے پیمانے پر فنڈ ریزنگ ہوئی۔ کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے گھر کا سارا،کسی نے آدھا سامان اور خواتین نے زیور تک اتار کر دے دیئے۔بڑی سخت ہدایات دی گئیں کہ تمام لوگ نکلیں، قرآن مجید اس حوالے سے کہتا ہے:
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالًا وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِيْلِ اﷲِ ذٰلِکُمْ خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.
تم ہلکے اور گراں بار (ہر حال میں) نکل کھڑے ہو اور اپنے مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم (حقیقت) آشنا ہو‘‘۔’’
(التوبة:41)
تیس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اتنے مشکل ترین حالات میں 531 کلو میٹرکا طویل ترین سفر، بھوک پیاس،فاقے،قحط سالی کے باوجود تبوک جا پہنچے۔ جب وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ خبر ہی درست نہیں۔ کوئی فوج موجود نہیں، کوئی لڑائی کی تیاری نہیں، کہیں جنگ کے آثار نہیں۔ یہ بات بھی کہی گئی کہ قیصر روم ڈر کر بھاگ گیا۔ ان سب باتوں کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس دن وہاں پر قیام کیا اور پھربغیر جنگ کے واپس مدینہ طیبہ تشریف لائے۔اب یہاں چند سوالات پیدا ہوسکتے ہیں: کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انٹیلی جنس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غلط معلومات دی تھیں؟ اگر وہاں کوئی جنگ کی تیاری نہیں تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنے بڑے پیمانے پر تیاری کیوں کی؟ لوگوں سے بڑھ چڑھ کر جانی ومالی قربانی و ایثار کے فرامین کیوں جاری فرمائے؟ کیا وحی الہی نے بھی (نعوذ باللہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہنمائی نہیں کی؟ اگر وہاں کوئی جنگ کی تیاری نہیں تھی تو تیس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اتنے مشکل حالات میں بیس دن کیوں وہاں بٹھائے رکھا، فوراً واپس کیوں نہیں آئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر اتنا سفر طے کرکے گئے تھے تو خالی واپس نہیں آنا چاہئے تھا ضرور جنگ کرتے،جہاد کرتے اور قیصر روم کی حکومت ختم کرکے آتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خالی واپس کیوں آگئے؟اس طرح کے بیسیوں سوالات ہوسکتے تھے لیکن اہل ایمان تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بصیرت پر یقین اور اعتماد رکھتے تھے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی زندگیوں میں ایک اصول اپنا لیا تھا کہ جو فیصلہ بھی تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کریں گے اگر اس کی حکمت سمجھ آجائے تو ٹھیک اور اگر وقتی طور پر سمجھ نہ بھی آئے تو کامیابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئے گئے اسی فیصلے میں ہی ہوگی۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حکمت عملی میں سو فیصد کامیاب رہے اور غزوہ تبوک نے قیصر روم کی حکومت کی بنیادیں ہلادیں۔ ان کی طاقت کا بھرم کھول دیا اور مستقبل قریب میں روم کی فتح کے دروازے کھول دیئے۔
اس اقدام سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جانثاری،وفاداری،استقامت کی کامل تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ منہاج القرآن اور عوامی تحریک نے بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے تصدق سے اس دھرنے سے یہی کچھ حاصل کیا۔آج نہ کوئی نبی، نہ کوئی معصوم اور نہ ہی غلطیوں سے پاک لیکن اُسوہ اور رول ماڈل وہی رہیگا اور کامیابی اسی میں ہے۔عوامی تحریک اسی اُسوہ کی روشنی میں چل رہی ہے اور کامیابی اس کے قدم چومے گی۔ ان شاء اللہ
تحریکی، تنظیمی اور جماعتی زندگی میں اصل اہمیت مقصد اور منزل کی ہوتی ہے اور انسان کی حقیقی کمٹمنٹ بھی اسی مقصد کے ساتھ ہوتی ہے۔اس میں جگہیں، افراد اور ذرائع ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس منزل کوپانے کے لئے مختلف طریقے اور ذرائع استعمال کیے جاسکتے ہیں ہیں، اگر ایک ذریعے سے وہ مقصد حاصل نہیں ہورہا تو عقل مندی کا تقاضاکیا ہوگا؟ کیا بار بار اسی ٹول (TOOL) کو استعما ل کیا جائے یا نئے راستے تلاش کیے جائیں؟ کیا ایک ذریعہ ناکام ہونے سے انسان اپنی شکست تسلیم کرلے اور مایوس ہو کر بیٹھ جائے یا فوراً کوئی نئی حکمت عملی اپنائے اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جائے؟ بعض اوقات انسان اپنی بساط اور دستیاب وسائل کے ساتھ پلاننگ کرتا ہے مگر کسی وجہ سے اس میں کامیابی نہ ہو تو کوئی بھی صاحب عقل انسان اس کو ناکامی نہیں کہتا بلکہ یہ وقتی ناکامی بہت بڑی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔یہی نظام زندگی ہے، یہی دستور حیات ہے اور اسی کا ہم صبح شام مشاہدہ کرتے ہیں۔
پاکستان کے موجودہ کرپٹ اور ظالمانہ نظام حکومت کو بدلنے کے لئے عوامی تحریک نے انقلاب مارچ اور دھرنے کی پالیسی اپنائی۔اس سے جو کچھ حاصل کیا جا سکتا تھا وہ حاصل ہو چکا جیسے پیغام انقلاب کی ترویج، موجودہ نظام سے عوامی نفرت کا اظہار، بیداری شعور،دس نکاتی ایجنڈے کی تشہیر، حکومت کی کمزوری۔ ہماری اس کاوش سے اگرہمیں فوری مقصد انقلاب حاصل نہ ہوسکا تو پھر کیا۔۔۔ ہماری اس جدوجہد نے انقلاب کے لئے ہمیں ایک ٹھوس بنیاد اور عوامی ہمدردی و تعاون تو فراہم کردیا ہے۔ اب ہم سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں نئی حکمت عملی سے منزل کے حصول کے لئے کوششیں جاری رکھیں گے۔
یہی بات حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے سمجھائی بلکہ وہ فرماتے ہیں کہ زندہ،متحرک، منظم اور باشعور قوموں کی ہچان ہی یہی ہے کہ صبح شام ان کی حکمت عملی،پالیسی اور منصوبہ بندی بدلتی رہتی ہے۔ وہ حکمت عملی کو تقدیر سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمال ِصدق و مرّوت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
قلندرانہ ادائیں، سکندرانہ جلال
یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں
حکیم میری نواؤں کا راز کیا جانے
ورائے عقل ہیں اہلِ جنوں کی تدبیریں