کرسمس کی تقاریب کا اہتمام اور ان میں شرکت
تحریک منہاج القرآن کے شعبہ Interfaith Relations اور Muslim Christian Dialogue Forum) MCDF) کے زیراہتمام منعقد ہونے والی کرسمس کی تقاریب کو بعض لوگ غیر اسلامی اور قرآن و حدیث کے خلاف قرار دیتے ہوئے قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو ہدف تنقید بناتے ہیں اور اس واقعہ کو یہود و نصاری سے مشابہت قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ اس طرح کے اعتراضات اور طعن و تشنیع کا جواب دینا تحریک کی روایت نہیں ہے لیکن بہت سے متعلقین و وابستگان کی طرف سے یہ تقاضا کیا جارہا ہے کہ چند تخریبی عناصر اس طرح کا مواد انٹرنیٹ پر شائع کرکے سادہ لوح ذہنوں کو پراگندہ کر رہے ہیں۔ بایں وجہ اس پر واضح موقف بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اسی پس منظر میں چند معروضات احاطہ تحریر میں لائی جارہی ہیں۔
اس ضمن میں سب سے پہلے یہ امر ذہن نشین رکھنا ضروری ہے اور اس میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ کرسمس مسیحیوں کا مذہبی تہوار ہے۔ مسلمانوں کے لیے اسے مذہبی طور پر اپنانا جائز نہیں ہے۔ تحریک کے مرکز یا بیرون ملک مراکز پر منعقد ہونے والی کرسمس کی تقاریب کا انعقاد قطعی طور پر مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ مسیحی مذہب کے پیروکاروں کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس میں شرکاء کی کثیر تعداد مسیحی افراد کی ہی ہوتی ہے اور تحریک منہاج القرآن کے سربراہ و قائد جذبۂ خیر سگالی کے اظہار کے لیے ایسی تقاریب میں شریک ہوتے ہیں۔ کرسمس کو اسلامی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے نہ کہ اس کا اہتمام مسلمانوں کے لئے کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ الزام کلیتاً بے بنیاد ہے کہ کرسمس کی تقریب کے منہاج القرآن کے کسی مرکز پر انعقاد کا مقصد مسلمانوں میں اس تہوار کو عام کرنا یا نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرنا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ آج سے بارہ سال قبل پاکستان میں مسیحی برادری کے لیے اس جذبۂ خیر سگالی کا اہتمام تحریک منہاج القرآن نے کیا ہے لیکن اب یہ پاکستان کے کئی مسالک کے علماء کا معمول بن چکا ہے۔ ہر سال بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کے اکابرین کی کرسمس کے تہواروں میں شرکت اور کرسمس کیک کاٹنے کی تصاویر ملاحظہ کر سکتے ہیں جو قومی اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ لہٰذا منہاج القرآن یا اس کے قائد پر اعتراض کرنے والے ان مسالک پر بھی اپنی رائے دے دیں اور ان پر بھی فتویٰ صادر فرمائیں۔
تحریک منہاج القرآن کے اسی مصالحانہ طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ عالمی سطح پر امت مسلمہ کے خلاف نفرت میں کمی ہورہی ہے اور دوسری قومیں مسلمانوں کے قریب آنا شروع ہوگئی ہیں۔ وہ مسلمانوں کے تہواروں کے موقع پر اپنے ہاں ضیافتوں کا اہتمام کرتی ہیں، جیسا کہ برطانیہ میں حکومتی سطح پر ہوا ہے (اس کی تفصیل آگے آرہی ہے)۔ اسی طرح پاکستان کے گرجا گھروں میں بھی محافل میلاد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد شروع ہوچکا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کی فروغ امن کی پالیسیوں اور مصالحانہ کاوشوں کا ثمر ہے کہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں پہلی بار فروری 2010ء میں Baptist Church میں محفل میلاد کا انعقاد کیا گیا۔ یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے تمسخر کی خاطر بنائے جانے والے توہین آمیز خاکوں کے خلاف مسیحیوں نے مسلمانوں کے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں پروگرام منعقد کیے ہیں۔ اس کی واضح مثال نولکھا پریسبیٹرین چرچ لاہور میں منعقد ہونے والا اجلاس ہے جس میں مسیحی برادری نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی پرزور مذمت کی۔ اسی طرح امسال 2010ء میں Facebook پر اِس طرح کے توہین آمیز خاکے بنانے کا مقابلہ کرانے کے اعلان پر آرگنائزر کو خود مغربی دنیا کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، نتیجتا یہ ناپاک مقابلہ منسوخ کر دیا گیا۔ امریکی ریاست فلوریڈا کے پادری Pastor Terry Jones کی جانب سے 9 ستمبر 2010ء کو نعوذ باﷲ بطور Burn Quran Day منانے کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن مسلم و غیر مسلم دنیا کی شدید تنقید کے باعث مذکورہ پادری نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ یہ تمام اقدامات صرف مصالحانہ اور معتدل طرز عمل کے باعث ممکن ہوئے ہیں۔
قارئین کرام! موجودہ دور میں دنیا ایک عالمی گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ غیر مسلم بالخصوص مسیحی اکثریت والے مغربی ممالک میں مسلمانوں کی کثیر تعداد آباد ہے۔ وہاں مسلمانوں کو مساجد کے قیام اور مذہبی اقدار پر عمل درآمد اور اپنے مذہبی تہوار منانے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ وہاں بڑی بڑی مساجد قائم ہیں۔ نماز پنج گانہ اور جمعہ کا باقاعدہ اہتمام ہوتا ہے۔ عیدین کے موقع پر تو مسلمان بڑے بڑے پارک اور ہال بک کروا کر اجتماعی عید کا اہتمام کرتے ہیں۔ سکولوں میں مسلمان بچوں کو عید پر باقاعدہ چھٹی دی جاتی ہے۔
وہاں کی حکومتیں اور دیگر منتظمین مسلمانوں کے تہواروں پر سرکاری سطح پر تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں اور ان تقاریب میں مسلمانوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے دینی تہواروں کے موقع پر غیر مسلم ممالک کے حکمران اور قائدین مسلمانوں کو مبارک باد دیتے ہیں اور ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم ہر سال رمضان المبارک کی آمد اور عیدالفطر اور عیدالاضحی کے موقع پر عالمی سربراہوں کے بیانات اخبارات میں پڑھتے اور ریڈیو و ٹی۔ وی پر سنتے ہیں۔ اس سال راقم کو برطانیہ کے دفتر خارجہ کی طرف سے عیدالفطر کی ایک ایسی تقریب میں شرکت کا موقع ملا جہاں ہر مسلک کے علماء و مشائخ، معروف کاروباری شخصیات سمیت مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد شریک تھی اور برطانوی کابینہ کے پانچ وزراء بھی مسلمانوں کے لیے عید الفطر کی تقریب میں آئے۔ گزشتہ دنوں برطانیہ کے وزیر اعظم نے عید الاضحی کے چند دنوں بعد 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں واقع وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں پہلی بار عید ملن پارٹی کا اہتمام کیا اور مسلم عمائدین کو وہاں دعوت دی۔ یہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن حکیم سے ہوا جب کہ پورے پروگرام کے دوران میں برطانیہ کا مشہور نعت خواں گروپ ’’عاشق رسول‘‘ درود و سلام کا ورد کرتا رہا۔ مغربی حکومتوں اور دیگر سیاسی شخصیات اور سماجی و معاشرتی تنظیموں کی طرف سے ان ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے عید ملن پارٹیز کا اہتمام ایک معمول کی بات بن چکی ہے۔
اب ایسے عالمی ماحول میں وہاں رہنے والے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے دنیا کے ممالک کو یہ پیغام دینا لازمی ہے کہ اسلام کی وسعت نظری سب سے بڑھ کر ہے، اسلام کا دامن رحمت سب سے کشادہ ہے اور مسلمانوں میں دوسروں کے برداشت کا جذبہ سب سے زیادہ موجود ہے۔ اسلام رجعت پسندانہ مذہب نہیں بلکہ وسیع ترین دین ہے۔ اسی بنا پر غیر مسلموں کے تہواروں پر جذبہ خیر سگالی کا اظہار کرتے ہوئے مسلمان بھی انہیں جواب دے دیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ دوسری اقوام و مذاہب کے ماننے والوں کے لیے اسلامی ریاست اور مسلمان ویسے ہی کشادہ دل ہیں جیسے وہ مسلمانوں کے لیے۔ اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو برابری کی حیثیت حاصل ہے اور ان کو بھی مذہبی آزادی حاصل ہے۔ بحیثیت انسان ان کی جان کی حرمت بھی ویسے ہی ہے جیسے ایک مسلمان کی جان؛ ان کے مال و اسباب کی حفاظت ویسے ہی لازم ہے جیسے مسلمانوں کے مال و اسباب کی۔ بحیثیت شہری ان کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کے ہیں اور ان کو اپنے مذہبی تہوار منانے کی آزادی حاصل ہے۔ امام ابو یوسف کتاب الخراج میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ جب خلیفۂ اول سیدنا ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے حکم پر دمشق اور شام کی سرحدوں سے عراق اور ایران کی طرف لوٹے تو راستے میں باشندگان عانات کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں یہ طے پایا کہ :
- ان کے گرجے اور خانقاہیں منہدم نہیں کی جائیں گی۔
- وہ مسلمانوں کی نماز پنج گانہ کے سوا ہر وقت اپنا ناقوس بجا سکتے ہیں، ان پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔
- وہ اپنی عید پر صلیب نکال سکتے ہیں۔
عہد رسالت مآب صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم میں بھی ہمیں ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں تاجدار کائنات صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم نے دوسرے مذاہب کے تہواروں کو برقرار رکھا، ان مذاہب کے پیروکاروں کو اپنے تہوار منانے کی مکمل آزادی عطا فرمائی اور شریعت کی حدود کے اندر رہ کر مسلمانوں کو دور قبل از اسلام کے ایام منانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔
ذیل میں چند مثالیں ملاحظہ ہوں :
1۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث مبارکہ ہے :
(صحيح بخاری، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1900)
(صحيح مسلم، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 795، 796، رقم : 1130)
متفق علیہ حدیث مبارکہ کی رُو سے حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اپنے پیغمبرانہ تعلق کی بنا پر خود روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کو بھی اُس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ ثانیاً یہود کو بھی ان کی اپنی روایات کے مطابق یہ دن منانے کی اجازت دی گئی۔ اِس طرح آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اِسلام کے دین امن و رحمت اور دین محبت و بقاے باہمی ہونے کی عظیم مثال قائم فرما دی۔
2۔ ایک اور متفق علیہ حدیث مبارکہ کی رُو سے واضح الفاظ میں ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی عید کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم گھر میں تشریف فرما تھے جب کہ انصار کی بچیاں روایتی گیت پڑھ رہی تھیں۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں :
(صحيح بخاري، کتاب العيدين، باب سنة العيدين لأهل الإسلام، 1 : 324، رقم : 909)
(صحيح مسلم، کتاب صلاة العيدين، باب الرفعة في اللعب الذي لا معصية فيه في أيام العيد، 2 : 607، رقم : 892)
’صحیح ابن حبان (13 : 178، 180، رقم : 6869، 5871)‘ میں مروی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ ایام عید سے مراد ایام تشریق یعنی حج کے دن تھے۔
اِس طرح حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم نے اِسلام کے دین اعتدال کی مثال قائم کرتے ہوئے مسلمان بچیوں کو وہ گیت گانے سے منع نہیں فرمایا جو کہ ان کے دور قبل از اسلام کی یادگار تھے؛ بلکہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو بھی روک دیا کہ ان بچیوں کو مت ڈانٹیں۔ اِس سے بڑھ کر اِسلام کی وسیع الظرفی کی اور کیا مثال ہوسکتی ہے کہ مسلمان اپنی عید کے موقع پر دور جاہلیت کے واقعات کو بطور یادگار ذکر کریں۔
3۔ اسی طرح ایک اور متفق علیہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ سن سات ہجری میں حبشہ سے آئے ہوئے ایک وفد نے مسجد نبوی کے صحن میں اپنے تہوار کے موقع پر جمع ہو کر اپنے علاقائی رقص کا اہتمام کیا۔ حضور صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو منع نہیں فرمایا بلکہ حضور صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم نے خود بھی اس کا مشاہدہ فرمایا اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا کو بھی اپنے پیچھے کھڑا کر کے یہ منظر دکھلایا۔ صحیح مسلم میں مروی روایت کے الفاظ ہیں :
(صحيح بخاري، کتاب الصلاة، باب أصحاب الحراب في المسجد، 1 : 173، رقم : 443)
(صحيح مسلم، کتاب صلاة العيدين، باب الرخصة في اللعب الذي لامعصية فيه، 2 : 608. 609، رقم : 892)
روایت کے آخری الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کافی دیر تک کھڑےاس کھیل کا مشاہدہ فرماتے رہے اور اِس طرح آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اِسلام کی وسیع الظرفی اور اعتدال پسندی کا عملی نمونہ فراہم کیا۔
یہی متفق علیہ روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے :
امام نسائی اور امام احمد بن حنبل سے مروی روایت میں یہ الفاظ ہیں :
(سنن نسائی، کتاب صلاة العيدين، باب اللعب في المسجد يوم العيد ونظر النساء إلی ذلک، 3 : 196، رقم : 1596)
(مسند احمد بن حنبل، 2 : 308، 540، رقم : 8066، 10980)
یہ روایت حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا سے بھی مروی ہے، جس میں انہوں نے گزشتہ صفحات میں بیان کیا گیا انصار کی بچیوں کا واقعہ اور حبشیوں کا کھیل اکٹھا ذکر کیا ہے۔ روایت درج ذیل ہے :
(صحيح بخاری، کتاب العيدين، باب الحراب والدرق يوم العيد، 1 : 323، رقم : 907)
(صحيح مسلم، کتاب صلاة العيدين، باب الرخصة في اللعب الذي لا معصية فيه في أيام العيد، 2 : 609، رقم : 892)
شارح ’صحیح بخاری‘ حاظ ابن حجر عسقلانی ’فتح الباری (2 : 443)‘ میں اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں کہ ’’وہ عید کا دن تھا۔ ‘‘ پس اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حدیث بھی پہلی حدیث کی طرح موصول ہے جس میں ہے کہ ’’اس دن حبشہ والے مسجد میں رقص کرتے‘‘ اور امام زہری کی مذکورہ روایت میں ہے کہ ’’اہل حبشہ مسجد میں کھیلتے‘‘ اور امام زہری نے ایک روایت جو امام مسلم سے متصل ہے میں بحرابھم (اپنے جنگی ساز و سامان کے ساتھ) کا اضافہ کیا ہے اور امام مسلم کی روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں : جَاءَ حبَشٌ يَلْعَبُوْنَ فِي الْمَسْجِدِ (حبشہ کے لوگ مسجد میں رقص کرنے کے لیے آئے)۔ امام محب الدین طبری نے بیان کیا ہے کہ یہ سیاق بتلاتا ہے کہ ہر عید میں ان کی یہ عادت تھی کہ وہ مسجد میں (اپنے سامان حرب کے ساتھ) کھیلتے تھے۔ امام ابن حبان کی روایت میں ہے کہ جب حبشہ کا وفد آیا، تو وہ مسجد میں (اپنے سامان حرب کے ساتھ) رقص کرنے لگے، اور یہ چیز بتلاتی ہے کہ انہیں اس کام کی اجازت وہاں آتے وقت ملی تھی۔ ان دونوں چیزوں میں مغایرت نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے ان کا وہاں آنا عید کے روز ہو، اور عیدوں میں کھیلنا ان کی عادت ہو۔ پس انہوں نے ایسا اپنی عادت کے مطابق کیا ہو، پھر وہ ہر عید کو ایسا کرنے لگے ہوں۔ اس کی تائید وہ روایت بھی کرتی ہے جسے امام ابو داؤد نے حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : جب حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، تو اہل حبشہ نے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی میں اپنے سامان حرب کے ساتھ رقص کیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری کا دن ان کے نزدیک (تمام خوشیوں اور) عید کے دنوں سے بڑھ کر تھا۔‘‘
قارئین کرام! ایک اعتراض یہ بھی وارِد کیا جاتا ہے کہ مسیحیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اپنا رب بنا لیا ہے اور ان کی اکثریت عقیدۂ تثلیث کی قائل ہے۔ اس لیے وہ کرسمس کی تقاریب میں ایسے جملے ادا کرتے ہیں کہ جو اصل عقیدہ توحید سے متصادم ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عقیدہ تثلیث ان نصاری کا بھی تھا جو حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں تھے۔ نصاری کے اس عقیدے کے بارے میں قرآن حکیم بیان فرماتا ہے :
سورۃ النساء کی آیت نمبر 171 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اسی طرح یہود کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عزیر علیہ السلام اﷲ کے بیٹے ہیں۔ قرآن حکیم فرماتا ہے :
لیکن اس سب کے باوجود حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہود مدینہ کے ساتھ معاہدات بھی کیے، ریاست مدینہ کے سربراہ کی حیثیت سے انہیں مذہبی آزادی عطا فرمائی اور ان کی شریعت کے مطابق ان کے فیصلہ جات فرمائے۔
اسی طرح نصاری کے عقیدہ تثلیث کے باوجود آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے ساتھ مثبت رویہ اپنایا یہاں تک کہ جب اسلام فتح حاصل کرچکا تھا تو مدنی دور کے آخری زمانہ میں نجران کے عیسائیوں کا وفد بیس دن تک مدینہ منورہ میں قیام پذیر رہا اور مسجد نبوی میں اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرتا رہا۔ واضح رہے کہ اس وقت بھی عیسائی عقیدہ تثلیث کے قائل تھے اسی لیے تو انہیں سورۃ آل عمران کی مذکورہ آیت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین قدر مشترک پر اکٹھے ہونے ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔ لیکن ہمیں ایسی کوئی حدیث یا روایت نہیں ملتی جس میں حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے عیسائیوں سے ان کے عقیدے کے بارے میں بحث مباحثہ کیا ہو یا کوئی ایسی شرط رکھی ہو کہ وہ مسجد نبوی میں شرکیہ کلمات پر مبنی عبادت نہیں کریں گے۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں ایک دوسرے مقام پر دوسروں کے جھوٹے معبودوں کو صرف اس لیے برا بھلا کہنے سے منع فرما دیا گیا کہ مبادا رد عمل میں وہ مسلمانوں کے سچے معبود کو برا بھلا نہ کہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے :
درج بالا میں بیان کیے گئے واقعات اور مستند و صحیح احادیث سے ثابت ہوجاتا ہے کہ اِسلام ہر سطح پر اعتدال پسندی اور وسعت ظرفی کا درس دیتا ہے۔ لہٰذا موجودہ دور میں ۔ جہاں ہر طرف سے اسلام پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کا لیبل لگایا جارہا ہے۔ غیر مسلموں کے سامنے اسلام کا حقیقی اعتدال پسند پہلو اجاگر کرنے کے لیے ریاستی و تنظیمی قائدین کی جانب سے ان کے مذہبی تہواروں میں شرکت کو معیوب نہیں گرداننا چاہیے۔ اس سے اسلام کا ایک خوبصورت چہرہ دنیا کے سامنے آئے گا اور وہ گرد چھٹے گی جو بصورت دہشت گردی اور انتہا پسند مذہبی طبقات کے غیر اسلامی افعال کی وجہ سے اسلام کے چہرے پر پڑی ہے۔ دنیا اسلام کو تحمل و برداشت، رواداری و بقاے باہمی، عدل و انصاف اور حقوق انسانی کے محافظ دین کے طور پر مانے گی۔ دنیا اسلام کی طرف متوجہ ہوگی۔ اس عالمی گاؤں میں جہاں مشرق میں ہونے والے واقعے کی ویڈیو اور خبر آن واحد میں مغرب میں پہنچ جاتی ہے۔ اسلام کا یہ چہرہ دنیا کے سامنے لانا دعوت اسلام کی ہی ایک صورت اور تبلیغ دین کی ہی ایک حکمت ہے۔ لیکن دیکھنے کے لئے آنکھوں کی، سننے کے لیے کانوں کی اور سمجھنے کے لیے عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہالت کی گہرائیوں میں گرے لوگوں کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے اٹل فیصلہ دے دیا ہے۔
تحریک منہاج القرآن کی طرف سے مسیحیوں کے لیے کرسمس ڈے کی تقاریب کے انعقاد کا مقصد قطعی طور پر یہ نہیں کہ عامۃ المسلمین مسیحیوں کے تہواروں میں شرکت کرنا شروع کر دیں، مسلمان وسیع پیمانے پر کرسمس کی تقاریب کا اہتمام کرنے لگ پڑیں یا اپنے مذہبی تہواروں کو چھوڑ کر دوسرے مذاہب کے تہوار اپنانا شروع کر دیں۔ بلکہ علامتی سطح پر ایسے پروگراموں کے انعقاد کا مقصد صرف یہ ہے کہ بین المذاہب روارادی کو فروغ ملے اور عالمی سطح پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین پائے جانے والے اختلافات کی خلیج کم ہو۔ اسلام کو محبت، امن رواداری اور بقاے باہمی کے مذہب کے طور پر جانا جائے اور مسلمانوں کے لیے دنیا بھر میں مشکلات کم ہوں اور ان کو دیگر غیر مسلم ممالک میں حاصل مذہبی آزادیاں قائم رہیں۔