اسلام آباد لانگ مارچ، کیا کھویا کیا پایا؟

انقلاب دشمن طاقتوں کے پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر تبدیلی کے خواہشمند بعض نادان دوست یہ سوال کرتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے لانگ مارچ کیا، عوام کا پیسہ اور وقت ضائع کیا لیکن کیا حاصل ہوا کہ حکومت گرانے کی بجائے مذاکرات کر کے واپس آ گئے؟

سادہ سا جواب ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نہ تو خود بیوقوف ہیں اور نہ ان کے پیروکار بیوقوف ہیں۔ انہوں نے 3 دن تک اسلام آباد کے ٹھٹھرتے موسم میں بیٹھ کر عوام کو آوازیں دیں کہ قوم انتخابات کے نام پر آئندہ ہونے والے دھوکے کو پہچانیں اور اس کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں۔ گھر بیٹھے رہنا ایک طرح سے اظہار اطمینان سمجھا جائے گا۔ لیکن نام نہاد تبدیلی کے خواہشمندوں سمیت قوم کے ایک بڑے طبقے نے اس آواز پر کان نہ دھرے اور کرپٹ نظام میں ووٹ سے تبدیلی کی امید رکھی۔

دھرنے میں بیٹھے ہم یہ سوچتے تھے کہ کیسی بے حس قوم ہے کہ ہم ان کی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لئے اپنی جان قربان کرنے کو یہاں آبیٹھے ہیں اور یہ ہیں کہ ہماری اس قربانی کو سراہنے کو بھی تیار نہیں؟ کیا ایسی بے حس قوم کو انقلاب دینے کے لئے ہم اپنی جانیں لٹا دیں؟

پھر ہمارے قائد نے وہی کیا جو کرنا چاہئے تھا۔ حکومت کے گیارہ چوٹی کے سرکردہ لیڈروں کو اسی کنٹینر میں اپنے ساتھ بٹھایا جس کنٹینر میں بیٹھنے کو حکومت ’’حرام‘‘ قرار دے رہی تھی، اور ان سے ایک ایسے معاہدے پر دستخط کروا لئے جسے وہ کبھی پورا نہیں کر سکتے تھے اور بالواسطہ قوم کو ایک اور موقع دیا کہ چونکہ یہ لوگ اس معاہدے کو توڑیں گے تو قوم کے پاس ان بدعنوانوں سے نجات کے لئے 62، 63 کی شکل میں پھر ایک ہتھیار بچ جائے گا۔ لیکن افسوس کہ اس سوئی ہوئی قوم کے کسی فرد نے ان لٹیروں کے الیکشن لڑنے کے عمل کو بھی چیلنج نہ کیا۔

ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے بھی اپنے جانثاروں کا خون رائیگاں جانے سے بچانے کے لئے اور قوم کو مزید سوچنے کا وقت دینے کے لئے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اب قوم مزید ’’جمہوریت‘‘ کا مزہ چکھ رہی ہے اور بعض طبقات کہنے لگے ہیں کہ طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے لیکن ابھی بھی کچھ لوگ شاید ضد کی وجہ سے اس بات کا اقرار نہیں کرنا چاہتے، تو کوئی بات نہیں قادری صاحب نے تو دو ٹوک کہہ دیا ہے کہ انقلاب ایک جماعت نہیں لاتی، پوری قوم لاتی ہے۔

جو نادان دوست ابھی نہیں سمجھ پائے وہ بھی عنقریب جان لیں گے کہ یہ انتخابی نظام باضمیر لوگوں کو بھی مردہ ضمیر بنانے کا نسخہ ہے۔