ڈاکٹر طاہرالقادری کے خوابوں کی حقیقت کیا ہے؟
ہماری سوسائٹی میں خوابوں کے بارے میں اکثر اذہان ابہام اور شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ بعض تو سرے سے خوابوں کو بے حقیقت اور بے ہنگم خیالات کا عکس قرار دیتے ہیں اور بعض صرف ان خوابوں کو سچا سمجھتے ہیں جن کو ان کے ہم مسلک احباب اور علماء نے دیکھا ہو۔ گویا انہوں نے سچی خوابوں کو اپنے اپنے مسلک کے حاملین کے لئے مختص کر دیا ہے حالانکہ رؤیا صالحہ کیبارے میں حدود ہماری اپنی وضع کردہ ہیں۔ زیر نظر سطور میں اس سلسلے میں ہم چند بنیادی امور بیان کرنا چاہتے ہیں تاکہ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے صحیح راہ اختیار کی جائے۔ خوابوں کے بارے میں اہم اور نازک ترین وہ مقام ہوتا ہے جہاں کوئی شخص اپنی خواب کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کرتا ہے۔ ایسا خواب بیان کرتے ہوئے ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واضح فرمان کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
وَمَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ.
بخاری، الصحیح، کتاب الانبیاء، 3: 1276، رقم: 3274
"اور جو جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ "
جس شخص نے حضور علیہ السلام کی نسبت خواہ ظاہری حیات کے قول کے حوالے سے یا عالم خواب کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت جھوٹ منسوب کیا وہ بلاشبہ دوزخ کا حق دار ہے۔
حضور علیہ السلام رویا صالحہ اور نیک خواب میں جو ارشار فرمایا ہے اس کے حق ہونے پر ایمان رکھنا بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح حضور علیہ السلام کے بیداری کے ارشاد میں ایمان رکھنا ضروری ہے فرق یہ ہے کہ اس حکم پر عمل پھر اس کے دیکھنے والے پر واجب ہوتا ہے۔ دوسروںکے لیے اس کا ماننا لازم ہے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات ظاہر ی میں فرمایا پوری امت کے لئے اس کا عمل واجب ہے، مگر جو عالم خواب میں فرمایا دیا وہ حق ہے لیکن اپنی تعبیر کے ساتھ دیکھنے والا اس پر اعتقاد کرے۔ جو شخص خواہ عالم بیداری میں یا عالم خواب میں حضور علیہ السلام کی طرف کوئی ایسی جھوٹی بات منسوب کرے جو حضور علیہ السلام نے نہ کہی ہو، نہ فرمائی ہو، اور وہ کہے کہ مجھے حضور علیہ السلام نے ایسے فرمایا یا ایسا حکم دیا ہے، خواہ بیداری کے دور حیات میں یا خواب کے حوالے سے کوئی وہ شخص بے ایمان، کافر، مرتد اور جہنمی ہو جاتاہے، جو کوئی بھی جھوٹ بولے گا، اللہ اس کی توبہ کو قبول کرسکتاہے لیکن اگر اس نے حضور علیہ السلام پر جھوٹ بولا تو اس کا ایمان بھی گیا، اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
اس مسئلہ پر بہت سی کتب اور حدیث پھر خوابوں اور ان کی تعبیرات سے متعلق محدثین اور علمائے حق کی تصنیفات بھری پڑی ہیں امام ابن سیرین کتاب کی جلد دو صفحہ 139 پر بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کو کھود رہا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس کی تعبیریہ ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو زندہ کرے گا۔
اب جس شخص کو تعبیرکا فن معلوم نہیں اگر وہ بددیانتی، خیانت، جہالت کا مرتکب ہو، اچھالنا چاہے تو وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ معاذ اللہ اس نے کیسی خواب دیکھی کہ حضور کی قبر انور کو کھود رہا ہے اورپھر اس بات کو آگے جمع تفریق کرتے ہوئے بڑھانا چاہے جیسے ظالموں نے ہماری بابت بڑھایا، توبات کہاں تک پہنچا سکتا ہے۔
اور تمام آئمہ، محدثین، علماء، اکابر، آج کے دن تک 13 سو سال سے فن تعبیر کے لیے امام ابن سیرین کی کتاب کو سند مانا گیا ہے، کوئی شخص اس کتاب کی مقبولیت اور اس کے مستند ہونے کا انکار نہیں کرسکتاہے۔ وہ بیان فرماتے کہ جو شخص خواب میں دیکھے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خون مبارک پی رہا ہے۔
چھپ کر پی رہا ہے تو فرماتے ہیں کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ شخص جہاد میں شہید ہوگا، اگر اس نے کھلے بندوں پیتا ہوا دیکھا اس کی تعبیر یہ ہے کہ اعلانیہ پینے والا شخص منافق ہو جائے گا، اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل اور اہل بیعت پر ظلم کرے گا۔
یاد رکھیں تعبیر سمجھے بغیر محض خواب سن کر زبان طعن دراز کرنا، گستاخی کا فتوی دینا بہت بڑی جسارت، بدبختی اور علمی خیانت ہے۔ یہ خود پر بے ادبی کا راستہ کھولنے کے مترادف ہے چنانچہ حضرت ابن سرین رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب کی جلد دوئم ص 216 پر لکھتے ہیں کہ اگرکسی شخص نے کسی شہر، کسی گھر، کسی مکتبہ یا کسی مقام پر جسے وہ جانتا ہے یہ دیکھا کہ وہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے ہیں تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ اس جگہ، اس شہر یا اس علاقہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت فوت ہو جائے گی۔ در حقیقت ہر خواب کی ایک تعبیر ہوتی ہے چنانچہ تعبیر کے حوالے سے یہاں حضور کی ذات مراد نہیں ہوتی بلکہ اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مراد ہوتی ہے۔ خواب میں آقا علیہ السلام کی زیارت سے کبھی دین شریعتمراد ہوتی ہے کبھی آقا کی امت اور امت کے حالات مراد ہوتے ہیں اور کبھی دیکھنے والے کا اپنا حال مراد ہوتا ہے۔ آقا علیہ السلام ایک آئینہ کی طرح اپنے امتی کے سامنے خواب میں دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی آئینہ ذات مصطفی میں امت کا حال نظر آ رہا ہوتا ہے تعبیر ایک فن ہے چنانچہ خواب اور اس کی تعبیر میں فرق ہوتا ہے۔
خوابوں کے معاملے میں ہمیں بے جا مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے ہماری شرارت پر مبنی چند خوابوں کو اچھال کر معاذ اللہ استغفر اللہ ہمیں بے ادب ٹھہرایا گیا ہے۔ اس سے بڑھ کر ہم پر کیا ظلم ہو سکتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی ہمارا عقیدہ اور نصب العین ہے یہی سبق ہم امت کو اور قوم کے بچے بچے کو شروع دن سے پڑھا رہے ہیں۔ ہم تو سگان مدینہ کے ادب کو بھی ایمان کا تقاضا سمجھتے ہیں۔ ہم پر بے ادب ہونے کا الزام خواب اور اس کی تعبیر کو سمجھے بغیر کیا گیا۔
حالانکہ معترضین کی اپنی کتابیں ایسے خوابوں سے بھری پڑی ہیں جو صبح شام وہ پڑھتے ہیں، ان میں سے بعض نمونے پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ اگرذرا بھی سمجھ ہوتی تو ایسے فتویٰ کبھی نہیں لگاتے، اس سے پتہ چلتاہے کہ مسئلہ علمی نہیں ہے بلکہ مسئلہ کوئی اور ہے۔
"مبشرات" دارالعلوم دیو بند ایک معروف کتاب ہے، میں اس کے حوالے اس لیے آج دے رہا ہوں، جو کچھ اس کتاب کے حوالے سے بیان کروں گا اس پر تنقید بھی نہیں کرنا چاہتا ہوں، ہمارا طریقہ بھی نہیں ہے، یہ بھی نہیں کہتا کہ یہ غلط ہے یا صحیح ہے، اپنا حق بھی نہیں سمجھتا، صر ف حوالے کے طور پر بیان کروں گا، متوجہ کرنے کے لیے کہ اگر اپنے گھر کو دیکھا ہوتا توپھر تحریک منھاج القرآن کو اس طریقے پر بدنام کرنے کا خیال نہ آتا، یہ کتاب دیو بندکی چھپی ہوئی ہے، اور دارالعلوم کے بارے میں علماء دیو بندکو جتنے خواب آئے جتنی بشارات ہوئیں، انہوں نے جو بیان کیں، نفس مسئلہ سمجھانے کے لیے بیان کر رہے ہیں۔