سورۃ البلد کی آیت نمبر دس کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کو دو راستے دکھاتے ہوئے مختار بنایا ہے۔ یہ اِبن آدم پر منحصر ہے کہ وہ اچھے اور برے راستے میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے۔ نیکی اور برائی کے اِنتخاب کی یہ کشمکش تخلیق آدم سے ہی چلی آرہی ہے کہ جب عزازیل نے تکبر کا راستہ اِختیار کیا اور راندہ درگاہ ٹھہرتے ہوئے ابلیس لعین بنا۔ جو لوگ اس کے راستے پر چلتے ہیں وہ ہمیشہ شر کا پہلو تلاش کرتے ہوئے ایسے راہ کے مسافر ہو جاتے ہیں جو کسی منزل پر منتج نہیں ہوتا؛ لیکن جو لوگ صراطِ مستقیم پر گام زن رہنے کی مخلصانہ سعی کرتے ہیں وہ ہمیشہ خیر کے متلاشی اور طالب رہتے ہیں۔
کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا اُن لوگوں کو بھی ہے جنہوں نے لاشعوری طور پر تفرقہ پروری اور امت میں انتشار پھیلانے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ ایسے لوگ دین کے لیے پُرخلوص کاوشیں کرنے والوں کے ہر اِقدام کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اُن پر طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ خود کچھ نہیں کرنا البتہ جو دین اور اُمت کے درد میں کوئی کام کرے اُس پر انگشت طعن دراز کرنی ہے۔ گویا ایسے لوگ نہ کردن یک عیب و کردن صد عیب کے عملی مصداق نظر آتے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 1985ء میں ’حرمت رسول اور تحفظ ناموسِ رسالت‘ پر اُس وقت عدالت میں اٹھارہ گھنٹے کے ٹھوس دلائل دیے جب دیگر نام ور علماء و محققین اِس موضوع پر سیر حاصل گفت گو کرکے عدالت کو مطمئن نہ کرسکے تھے اور ایسے لوگوں کی اپنے مزعومہ مقاصد میں کام یابی کے واضح امکانات پیدا ہوچلے تھے جو سرے سے ناموس رسالت کا ہی قائل نہ تھا۔ شیخ الاسلام نے دین دشمنوں کے سامنے بند باندھا اور اِس خدمت ک اِعتراف ہر مسلک و مکتب کے رہنماؤں نے کیا تھا کیونکہ ’حرمت رسول اور تحفظ ناموسِ رسالت‘ ایمان کا جزو لاینفک ہے۔ لیکن یار لوگوں نے اُس وقت بھی صرف شیخ الاسلام کی مخالفت میں ان کے دلائل کا ردّ کرنے کی کوشش کی۔ باطل کے چونکہ پاؤں نہیں ہوتے، اس لیے ناقدین و حاسدین کو ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہ ملی اور انہیں منہ کی کھانا پڑی۔
گزشتہ سال 2011ء میں پاکستان میں ممتاز قادری اور سلمان تاثیر کے واقعے کے بعد شیخ الاسلام نے مجدد ہونے کی حیثیت سے اُمت کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے ’حرمت رسول اور تحفظ ناموسِ رسالت‘ کا دوسرا پہلو بھی ملت کے سامنے رکھا کیونکہ ایک ایس طبقہ پروان چڑھ رہا تھا جس کے نزدیک ریاستی سطح پر تحقیق و تفتیش کے تقاضے پورے کیے بغیر اِنفرادی حیثیت میں ہی ہر کسی کی گردن اڑا دینا مسئلہ کا واحد حل تھا۔ لہٰذا اِس مسئلہ پر رہنمائی دیتے ہوئے شیخ الاسلام نے بارہ گھنٹے پر مشتمل خطابات میں زیر بحث مسئلہ کا کوئی جز بھی تشنہ نہ چھوڑا۔ لیکن ناقدین نے کم ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیشہ کی طرح ان عدیم النظیر خطابات کو بھی اپنی حسبِ مراد توڑ مروڑ کر پیش کیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ شیخ الاسلام نے نفرتوں، کدورتوں اور دشمنیوں کی خلیج کو ختم کرنے کا جو عالمی سفر شروع کیا ہے – جس میں وہ اِسلام کا اَمن و سلامتی کا حقیقی پیغام دنی کے سامنے پیش کرتے ہیں – وہی پیغام وہ اپنے حالیہ دورہ ڈنمارک میں بھی لوگوں کے سامنے پیش کر سکیں۔
شیخ الاسلام کے دورہ ڈنمارک کو ناکام بنانے کی غرض سے غلط پراپیگنڈہ کیا گیا جس سے متاثر ہو کر وہاں کی وزیر برائے معاشرتی اِستحکام و سماجی معاملات Karen Hakkerup نے شیخ الاسلام کے ساتھ ایک پروگرام میں شرکت کرنے سے انکار کیا۔ شیخ الاسلام نے معاملہ کی نوعیت بھانپتے ہوئے جب نبض مسئلہ پر ہاتھ رکھا اور مسکت جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’تحفظ ناموس رسالت‘ پر میرے دلائل کے بعد حکومت پاکستان نے صرف credit لینے کے لیے عجلت میں اسے بطور قانون نافذ کر دیا۔ میں نے عدالت میں ’تحفظ ناموس رسالت‘ کے ایک گوشے یعنی قانونِ تعزیرات (substantive law) پر دلائل دیے تھے جب کہ اس کے دوسرے حصہ یعنی procedural law کا تعلق حکومت کے ساتھ تھا اور میں قانون کا پروفیسر ہونے کی حیثیت سے حکومت کو اس پر رہنمائی فراہم کرنا چاہتا تھا۔ لیکن حکومت نے کسی قسم کی مشاورت اور رہنمائی کے بغیر اسے قانون بنا دیا اور procedural law پر کوئی توجہ نہ دی۔
یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ شیخ الاسلام نے تسلسل کے ساتھ procedural law کی اِصلاح پر زور دیا ہے اور مختلف اَدوارِ حکومت سے مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ یہی بات انہوں نے اپنے حالیہ دورہ ڈنمارک میں بیان فرمائی ہے کہ وہ کبھی جنرل ضیاء الحق کی کابینہ کے رُکن رہے نہ ہی اس کے دور میں پارلے مان کے رکن رہے؛ حالانکہ جنرل ضیاء الحق نے تین بار آپ کو وفاقی کابینہ کا رُکن بننے کی پیش کش کی۔ کیونکہ جس انداز سے جنرل ضیاء الحق شریعت لانا چاہتا تھا آپ اس کے حامی نہ تھے۔
اِس کے بعد ’خادمین دین‘ نے پینترا بدلا اور کافی محنت اور وقت کا ضیاع کرتے ہوئے The Two Faces of Dr Muhammad Tahir-ul-Qadri کے عنوان سے نئی بحث چھیڑ دی۔ اِس مذموم مقصد کی تکمیل میں تمام اخلاقی و شرعی اُصولوں کا بالائے طاق رکھ دیا گیا اور شیخ الاسلام کی گفت گو کے حصے ہی غائب کر دیے گیے۔ حالانکہ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 78 کے مطابق یہ وتیرہ تو ہرگز اسلام کے نام لیواؤں کا نہیں۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
آپ نے ڈنمارک میں یہ کہا کہ متقدم اَحناف غیر مسلموں پر توہین رسالت کی سزا کے حامی نہ تھے، لیکن اِس جملے کو کاٹ کر یہ تاثر دیا گیا جیسے غیر مسلموں پر توہین رسالت کی سزا کا اطلاق نہ ہونے کا قول شیخ الاسلام کا اپنا ہے۔ حالانکہ خود شیخ الاسلام نے متقدم احناف کے ردّ میں گزشتہ سال اپنے بارہ گھنٹے کے خطابات میں طویل دلائل دیے اور خود امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے staunch follower ہونے کے باوجود ان سے اختلاف کیا تھا۔
وائے افسوس! ساون کے اندھے کو ہرا ہی سوجھتا ہے۔
جس نے شیخ الاسلام اور آپ کی تجدید و خدمت دین کے کاموں کا اعتراف نہ کرنے کی قسم کھائی ہو، اُسے بھلا کیسے کوئی خیر کا پہلو دکھائی دے گا کیونکہ اُس کی آنکھیں تو اُس مکھی جیسی ہیں جسے بیٹھنے کے لیے سارے جسم کی بجائے صرف زخم ہی نظر آتا ہے۔
لہٰذا حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے صرف مخالفت برائے مخالفت سے دین کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، بلکہ دین دشمنوں کو ہی فائدہ ہوگا اور اُنہیں اسلام اور امت کا مذاق اُڑانے کا موقع فراہم ہوگا۔ اِس لیے دین اور اُمت کے وسیع تر مفاد میں ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر خدمت اِسلام کا فریضہ ادا کرنا چاہیے۔ لیکن اگر طبیعت اس کی اجازت نہ دے تو کم از کم یہ ہی کر لیا جائے کہ شیخ الاسلام کی مخالفت سے دست بردار ہوجائیں اور اپنے قیمتی وقت کو مثبت کاموں میں صرف کرتے ہوئے سچا خادم دین ہونے کا ثبوت دیں۔
اﷲ تعالیٰ ہماری کاوشوں میں خلوص و حسن نیت اور حق سے آگہی و شناسائی عطا فرمائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین)
طالب دعا
محمد فاروق رانا
فرید ملّت رح ریسرچ انسٹی ٹیوٹ