جنہیں یزیدی کہا انہی سے معاہدہ؟

کیا ڈاکٹر طاہرالقادری نے لانگ مارچ میں یزیدیوں سے معاہدہ کیا؟

تاریخِ اسلام کی تقریباً ہر کتاب میں درج ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار اور یہود سے کئی مرتبہ مذاکرات فرمائے اور ان کے درمیان مختلف معاہدے طے ہوئے، ’’صلح حدیبیہ‘‘ سب سے مشہور معاہدہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے بھی اپنے دورِ حکومت میں کفار اور یہود سے مذاکرات اور معاہدات کیے ہیں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے کربلا کی جنگ شروع ہونے سے پہلے مخالف فوج کے سربراہ سے مذاکرات کئے اور تین شرائط پیش کیں۔ ان شرائط مین سے ایک شرط یہ تھی کہ مجھے براہ راست یزید سے مذاکرات کرنے دیں۔ ان تمام مثالوں سے یہ حقیقت عیاں ہو رہی ہے کہ کفار، یہود اور یزیدوں سے مذاکرات اور معاہدات کرنا براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کی سنت ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ لفظ ’’یزید‘‘ کا استعمال محاورتاً بھی کیا جاتا ہے۔ جس طرح بہادر انسان کو شیر کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ انسان بھی کچا گوشت کھاتا ہے یا جنگلوں میں رہتا ہے یا اس کی زندگی ایک جنگلی شیر کی مانند ہے بلکہ صرف شیر کی ایک خاصیت بہادری کو اس آدمی کی خاصیت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ کوئی اپنے محبوب کو پھول کہہ دے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ بھی کسی گملے میں لگا ہوتا ہے۔ بلکہ پھول کی ایک خاصیت خوبصورتی کے پیش نظر محبوب کو پھول کہا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جب کسی شخص کو یزید کہا جائے تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ اس شخص نے بھی نعوذ باللہ امام حسین علیہ السلام کو شہید کروایا ہے بلکہ یزید کی خاصیت ظلم، کرپشن اور بددیانتی کے پیش نظر وہ شخص بھی کرپٹ، ظالم اور بددیانت ہے، جسے یزید کہا جا رہا ہے۔

کیا لانگ مارچ فیز ٹو میں بھی معاہدہ کر لیں گے؟

حدیث مبارکہ ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔

پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے اور سو فیصد پرامن لانگ مارچ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے دھرنے میں شریک ہونے والے لوگوں میں اکثریت ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے پیروکاروں کی تھی، جبکہ عام عوام کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی۔ عوام صرف گھروں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر دعائیں دیتے رہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری دھرنے کے دنوں میں بھی انہیں روزانہ بار بار پکارتے رہے کہ اپنے حقوق کیلئے باہر نکل آؤ اور ان کی یہ پکار تمام ٹی وی چینل لائیو نشر کرتے رہے، مگر بے حس عوام ٹس سے مس نہ ہوئے۔

قوم کی بےحسی کی سزا کے طور پہ اپنے پیروکاروں کو مزید آزمائش میں ڈالنے کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ چنانچہ انہوں نے اسے ایک اچھی پرامن ریہرسل قرار دیتے ہوئے واپسی کی راہ لی اور اگلی بار کم از کم اتنی مزید تیاری کے ساتھ آنے کا عزم کیا کہ معاہدے کی نوبت نہ آنے پائے اور تمام پرامن شرکاء کو بحفاظت اسلام آباد سے نکالنے میں بھی کامیاب ٹھہرے۔

اس بار ان شاء اللہ العزیز پہلے سے ہی اتنی معقول افرادی قوت نکالی جائے گی اور پہلے سے اتنا شعور بیدار کر دیا جائے گا کہ وطن عزیز کے ہر شہر میں لاکھوں افراد باہر نکل آئیں کسی قسم کے معاہدے کی نوبت نہ آئے، بلکہ نتیجہ نظام کی تبدیلی کی صورت میں نکلے۔