کیا 1990ء میں ڈاکٹر طاہرالقادری پر ہونے والہ قاتلانہ حملہ ایک ڈرامہ تھا؟

ڈاکٹرطاہرالقادری کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے کہتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ نے 1990 میں ان پر ہونے والے قاتلانہ حملہ کو خودساختہ قرار دیا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری پر 1990 میں ہونے والے قاتلانہ حملے کے حوالے سے ان کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کا ایسا کوئی فیصلہ وجود نہیں رکھتا۔

جب ڈاکٹرطاہرالقادری پر فائرنگ ہوئی تو ان کے شدید مخالفین برسراقتدار تھے۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ نے تحقیقات کیلئے جسٹس فضلِ کریم پر مشتمل ایڈمنسٹریٹیوو ٹربیونل قائم کیا تھا، جس نے 25 دن شہادتیں اکٹھی کیں۔ ان تحقیقات کے دوران قاتل بےنقاب ہوتے نظر آ رہے تھے۔ موقع ملاحظہ کیا گیا۔ پولیس کی ساری رپورٹ غلط ثابت ہوئی۔ حتیٰ کہ ہماری جوابی فائرنگ کے نتیجے میں جو کرائے کا قاتل مر گیا تھا، اسے اس کے ساتھیوں نے رات کے اندھیرے میں رکھ چندرا کے قبرستان میں گڑھے میں دبا دیا تھا۔ اس کا ہاتھ باہر رہ گیا تھا۔ اگلے دن کتوں نے اس کی لاش کو نوچا تو اس کی لاش برآمد ہوئی۔ گورکن نے ایف آئی آر درج کروائی۔ اس لاش کا پوسٹ مارٹم ہوا تو اس کے جسم سے وہ گولی نکلی جو ہمارے گارڈ نے جوابی فائرنگ کے دوران چلائی تھی۔ جب ساری بات مجرموں کی گلی تک پہنچی، حملہ کرنے والے کی لاش کے فوٹو آ گئے، اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ پیش کر دی گئی، اس کا نام پتہ چل گیا اور اس کے رشتے دار معلوم ہوگئے اور یوں 25 دنوں میں یہ سب کچھ اس ٹریبونل نے جمع کرلیا تو غیرجانبدارانہ شفاف تحقیقات کو رکوانے کیلئے جسٹس فضل کریم کی سربراہی میں قائم ایڈمنسٹریٹیوو ٹربیونل کو اُس وقت کے پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل مقبول الہی ملک نے گالیاں دے کر اور مشتعل کرکے تڑوا دیا۔

اس کے ایک مہینے بعد ایک اور ریٹائرڈ جج جسٹس اختر حسن کو بطور رشوت مزید ایکسٹینشن دے کر کیس اس کے سپرد کر دیا گیا۔ جب ڈاکٹرطاہرالقادری اس کے سامنے پیش ہوئے تو انہوں نے پوچھا کہ کیس کو کہاں سے شروع کریں گے؟ جج نے کہا کہ پچھلے 25 دن کی ساری شہادتیں ختم ہیں، کیس نئے سرے سے شروع کروں گا۔ اس پر ڈاکٹرطاہرالقادری نے کہا کہ اگر آپ غیرجانبدارانہ تحقیقات کے نتیجہ میں اب تک جمع ہونے والا ریکارڈ ضائع کرکے نئے سرے سے کیس کی سماعت شروع کرتے ہیں اور ساری شہادتیں آپ نے ملیامیٹ کر دی ہیں تو یہ بددیانتی کی انتہا ہے، میں آپ کے ٹربیونل کو تسلیم نہیں کرتا، میں اپنا انصاف قیامت کے دن اللہ کی عدالت سے لوں گا۔ یوں انہوں نے کارروائی کا بائیکاٹ کردیا۔

اب حکمرانوں کے پاس ڈاکٹرطاہرالقادری کی کردارکشی کے سوا کچھ نہ بچا تھا۔ سو انہوں نے صحافت میں موجود بعض کالی بھیڑوں کو خرید کر اخبارات میں ایسے افسانے شائع کروائے کہ سادہ لوح قوم کو یہ باور کروایا جائے کہ لاہور ہائی کورٹ نے ڈاکٹر طاہرالقادری پر ہونے والے قاتلانہ حملے کو خودساختہ قرار دیا ہے۔ حالانکہ اس ایڈمنسٹریٹیوو ٹربیونل کا لاہور ہائی کورٹ سے صرف اتنا تعلق تھا کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج پر مبنی تھا جسے اس وقت کی پنجاب حکومت نے اپنی مرضی کا کام لینے کیلئے بطور رشوت ایکسٹینشن دے کر تعینات کیا تھا۔

ڈاکٹرطاہرالقادری نے نومبر 2013ء میں دورانِ انٹرویو معروف جرنلسٹ محمد مالک کے سوال کا جواب دیتے ہوئے مذکورہ بالا تمام حقائق ان کے سامنے رکھے۔ بعد ازاں محمد مالک نے ایک اور ٹی وی پروگرام میں محمد اسامہ غازی کے سوال پر انہیں بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بارے میں ڈاکٹرطاہرالقادری نے مجھے کافی مطمئن کیا۔ میں نے منہاج القرآن میں بیٹھ کر کافی تفصیل سے ان کے ڈاکومنٹس دیکھے تھے۔ ان میں گواہوں سمیت 1990 کے قاتلانہ حملہ کے حوالے سے دیگر تمام تفصیلات موجود تھیں۔ اس میں ان کے بیان میں کافی تقویت ہے۔ پہلے جج صاحب (جسٹس فضل کریم) کی ریکارڈ کردہ گواہیوں کو (حکومتی دباؤ پر) ہٹایا گیا تو اس سے کیس کا رخ بدل دیا گیا۔ پہلے 25 دن کی جو شہادتیں تھیں ان کے حساب سے ڈاکٹرطاہرالقادری کا کیس کافی مضبوط ہے۔ شہادتوں میں ان شہادت بہت مضبوط تھی کہ جو آدمی جس کا بعد میں پتہ چلا کہ لاش ملی ہے اور وہ کراس فائرنگ میں مارا گیا ہے، وہ ایک بہت مشہور ایم این اے کا گن مین تھا، جو مخالف کیمپ کا تھا۔ اس کیس میں ڈاکٹرطاہرالقادری کی باتوں میں کافی وزن ہے۔ جو ڈاکومنٹس میں نے دیکھے ہیں اس کے حساب سے ان کی بات درست ہے۔

براہ راست ڈاکٹر طاہرالقادری کی زبان سے سننے کیلئے ذیل میں موجود ویڈیوز دیکھئے:

معروف جرنلسٹ محمد مالک کے سوال کا جواب اور بعد میں ان کا اہم تبصرہ

معروف ٹی وی اینکر وسیم بادامی کے سوال کا جواب

اللہ تعالٰی ہمیں حقیقت حال پر انشراح صدر عطا فرمائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)