لانگ مارچ میں لوگ سردی اور بارش میں بیٹھے رہے، جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری گرم کنٹینر میں۔ آخر کیوں؟

ڈاکٹر طاہرالقادری کا لانگ مارچ کے دوران کنٹینیر میں بیٹھنا ان کی نہیں بلکہ ان کے ورکرز کی ضرورت تھی کہ وہ اپنے لیڈر کی حفاظت کے لئے کسی بھی سطح تک جانے کو تیار رہتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ورکرز نے اپنی ضرورت کے تحت اپنے قائد کو پروٹوکول دے کر دنیا کو بتا دیا کہ وہ اپنے لیڈر کی حفاظت کیسے کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی طرح نہیں کہ جو اپنی لیڈر بےنظیر بھٹو کی حفاظت نہ کرسکے اور وہ شہید ہوگئی اور تحریک انصاف کی طرح بھی نہیں کہ جو اپنے لیڈر کے لئے ڈھنگ کا مضبوط سٹیج نہ بنا سکے اور انہیں لفٹر سے گرا دیا۔ اگڑ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ورکر ان کی حفاظت کا فول پروف انتظام نہ کرتے تو لانگ مارچ کے پہلے دن رحمان ملک کی طرف سے کروائی جانے والی فائرنگ کے نتیجے میں وہ اپنا لیڈر کھو چکے ہوتے۔

ایک لیڈر کی زندگی عام آدمی سے یقیناً قیمتی ہوتی ہے اور یہ قوم کا فرض ہوتا ہے کہ وہ حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنے لیڈر کی حفاظت کے بہتر سے بہتر انتظامات کریں۔ تاریخ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی کوئی غزوہ ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کے پیش نظر خصوصی خیمہ لگایا جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں تشریف فرما ہو کر صحابہ کرام کو ہدایات جاری فرماتے۔ اس خیمے کے ارد گرد مسلح صحابہ تعینات ہوتے جو حفاظتی (سکیورٹی) فرائض سرانجام دیا کرتے تھے۔ اسی سنت کے تحت صحابہ کرام میں سے بھی کوئی جرنیل اور سپہ سالار جب جنگ کے لئے جاتا تو اس کی حفاظت کے بھی خصوصی انتظام کئے جاتے تھے۔ امام حسین علیہ السلام جب کربلا میں یزیدی فوجوں سے صف آراء ہوئے تو آپ علیہ السلام کے خیمے کی حفاظت بھی مسلح سپاہیوں کے ذمہ تھی۔

قیام پاکستان کے وقت تاریخ کی ایک بڑی ہجرت ہوئی۔ لاکھوں مسلمان ہندوستان سے پیدل، بیل گاڑیوں اور ریل گاڑیوں وغیرہ کے ذریعے پاکستان آئے۔ مگر لاکھوں مسلمانوں کو راستے میں ہی شہید کر دیا گیا۔ جب سب لوگ اپنے مال و اسباب اور عزیز و اقارب کی قربانی دے کر، لٹے پٹے قافلوں کی صورت میں پاکستان پہنچے تو عین اسی وقت ہوائی جہاز کے ذریعے قائداعظم کراچی ایئرپورٹ پر اترے۔ اس وقت کی قوم کیونکہ آج کل کے لوگوں کی طرح بے وقوف نہیں تھی، ورنہ قائداعظم کو بھی کہہ دیتی کہ ہمارے مال و اسباب ہم سے چھن گئے ہیں، ہمارے عزیز و اقارب شہید ہو گئے ہیں، ہم پیدل آ رہے ہیں، مگر قائداعظم جہازوں پر سوار ہیں؟ مگر صدافتخار کہ کسی شخص نے اس طرح کی بات نہیں کی، کیونکہ ہر کوئی جانتا تھا کہ ایک لیڈر کی زندگی عام انسان سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتی ہے اور لیڈر ہر روز پیدا نہیں ہوتے۔ یہی سوچ کر ہر کسی نے مال و اسباب لٹا دیئے، خاندان شہید کرا دیئے مگر قائداعظم پر کوئی اعتراض نہیں کیا، انہیں ہر طرح کی سہولت اور آرام پہنچایا۔

ان تمام حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم تنگ نظری کی عینک اتار کر ذرا غور و خوض کریں تو یہ حقیقت بھی سامنے آ جائے گی کہ حالات ماضیہ کی نسبت موجودہ دور کے حالات کئی گنا زیادہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ موجودہ دور کی لیڈرشپ کے لئے بہتر سے بہترین حفاظتی انتظامات کئے جائیں۔