السلام علیکم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ اگر کوئی گستاخی کرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تو عدالت کا کام ہے اسے سزا دینا۔ لیکن ان کی کتاب تحفظ ناموس رسالت میں ایسے واقعات ہیں جن میں حضرت عمر نے بغیر نیت دیکھے سر قلم کر دیے۔ لیکن حال میں انہوں نے کہا کے اس کی نیت دیکھی جائے گی۔ جب کہ کوئی ایسی حدیث بتا دے یا کو ئی واقعہ جس میں کسی نے گستاخی کی اور اسے سزا عدالت نے دی بلکہ حضور کے دور میں بھی قتل کر دیتے بعد میں حضور کے پاس آتے۔ برائے مہربانی عدالت کا کام ہے سزا دینا یہ سمجھا دے۔ اور کیا ان کا موجودہ بیان ان کی کتاب تحفظ ناموس رسالت کے مخالف نہیں؟
جواب:
تحریک منہاج القرآن نے اپنے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیات میں اپنے 30 سالہ دور میں تقریباً چھ ہزار خطابات، 1000 کتب، کثیر لٹریچر، 575 اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز اور پوری دنیا میں اپنے تنظیمی نیٹ ورک کے ذریعے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ادبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، نسبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، معرفتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اطاعتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سربلندی کے لیے عظیم اور قابل قدر کام کر کے تجدید و احیائے اسلام اور اقامتِ دین کی مستحکم بنیادیں اُستوار کر دی ہیں۔ قائد تحریک نے فرقہ واریت کے خاتمے اور اُمتِ مسلمہ کو جسدِ واحد بنانے کے لیے ہمیشہ فتویٰ بازی اور فتنہ پروری سے کلیتاً پاک جد و جہد کی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کو دنیا سفیرِ عشقِ رسول اور پیامبرِ امن کے نام سے پہچانتی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دینِ اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کیے جانے والے ہر اعتراض اور سوال کا جواب ایسے علمی و تحقیقی، سائنسی، روحانی اور ادبی انداز میں پیش کیا ہے کہ اسلام دشمن اور مذہب بیزار لوگ علم اور دلائل کے میدان میں شکست کھا چکے ہیں۔ شیخ الاسلام کے علمی مقام کو دیکھ کر دنیا کے کئی ممالک میں آپ کی کئی کتب مدارس اور یونی ورسٹیوں میں شاملِ نصاب کی جا چکی ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی یہ کاوشیں اور کامیابیاں جہاں عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چرچے دیکھ کر خوش ہونے والوں اور دین کی سربلندی اور اتحادِ اُمت کا خواب دیکھنے والوں کے لیے باعثِ فرحت و اطمینان ہیں، وہاں فرقہ پرستی اور فتنہ پروری کی بنیاد پر مذہبی دکان داری اور کاروبار کرنے والوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ وقتاً فوقتاً قائدِ تحریک پر فتویٰ بازی اور غیر اخلاقی گفتگو تحریر و تقریر کی شکل میں کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں گستاخِ رسول کی سزا موت بطورِ حد کا قانون 295-C بھی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کاوشوں اور عدالت میں دلائل کے بعد پاکستان کے قانون کا حصہ بنا۔ اب کچھ کم فہم لوگوں کی طرف سے عوام میں اِبہام پیدا کرنے کی بناء پر یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ علمی اور تحقیقی طور پر پوری شرح و بسط کے ساتھ واضح کیا جائے کہ گستاخِ رسول کون ہوتا ہے تاکہ گستاخِ رسول سزا سے بچ نہ سکے اور جو گستاخ ثابت نہ ہو وہ بلاوجہ کسی کی کم علمی کی وجہ سے عوامی غیظ و غضب کا شکار نہ ہو۔ اِس موضوع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے موقف۔ جو قرآن و سنت اور تمام اَئمہ مجتہدین بشمول حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور دیگر اکابر فقہاے کرام کے دلائل پر مبنی ہے۔ کا خلاصہ یہ ہے کہ گستاخِ رسول کے حوالے سے کیس دو طرح کے ہو سکتے ہیں۔
پہلی نوعیت کے کیس
وہ شخص جو آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام کا نام لے کر، مخاطب کر کے، ذکر کر کے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کا یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ کا یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپاے حسن کا یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پسندیدہ چیز یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ پاک کا یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسمِ مبارک کا مذاق اُڑائے، گالی دے، تضحیک کرے، الفاظ صراحتاً بولے یا اجمالاً، اشارتاً یا کنایتاً، ارادے اور نیت سے یا بغیر ارادے اور نیت کے؛ وہ شخص گستاخِ رسول ہوگا۔ ایسے شخص کی نہ معافی ہے اور نہ توبہ، نہ اُس کی نیت دیکھی جائے گی اور نہ ہی کوئی تاویل، تشریح اور تفصیل اُسے سزائے موت کے قانون سے بچا سکتی ہے۔ اُس کا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے بقول گستاخِ رسول جہنم کا ذلیل کتا ہے۔ گستاخِ رسول مرد ہو یا عورت، مسلم ہو یا غیر مسلم، سب پر ایک ہی سزا نافذ ہوگی اور وہ سزاے موت ہے۔ کوئی عدالت یا حکومتی عہدے دار سزا کو معاف کر سکتا ہے نہ کمی یا تبدیلی کر سکتا ہے۔
دوسری نوعیت کے کیس
وہ شخص جو اپنے قول میں آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام کا نام لے، نہ ذکر کرے، اشارہ کرے نہ حوالہ دے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ مبارکہ اور شریعتِ محمدی کا ذکر کر کے بات کرے لیکن اس شخص کا قول ایسا ہو جس کو گستاخی بھی سمجھا جاسکتا ہو اور گستاخی کے علاوہ بھی اس کا مفہوم نکل سکتا ہو یا ایسا ہونا ممکن ہو، تو ایسے شخص کا فیصلہ کرنے کے لیے۔ کہ آیا وہ گستاخِ رسول ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔ اہل اور جید علماء کرام اس کے کلام کا سیاق و سباق، نیت، الفاظ صریح گستاخی کے ہیں یا نہیں، اور اِس طرح کی دیگر تفصیلات کو پیشِ نظر رکھ کر فیصلہ دیں گے کہ واقعی یہ شخص گستاخی کا مرتکب ہوا ہے یا نہیں۔ اِس قسم کا فیصلہ عوام نہیں کر سکتے۔ اِس دوسری نوعیت کے کیس میں کسی کو مرتد اور گستاخ ثابت کرنے کے لیے شعر و شاعری، جو شِ خطابت اور عوامی جذبات بھڑکانے کی نہیں بلکہ دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی کتاب ’تحفظِ ناموسِ رسالت‘ پہلی نوعیت کے کیس کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ اس کی عبارات پر ڈاکٹر صاحب بھی اور ہم وابستگانِ تحریک منہاج القرآن آج بھی اُسی طرح متفق ہیں، جیسے پہلے تھے۔ دوسری نوعیت کی تفصیلات شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے حالیہ 13 گھنٹے پر مشتمل خطابات ’گستاخِ رسول کون ہوتا ہے اور گستاخی کن کلمات سے ثابت ہوتی ہے؟‘ میں بیان کی گئی ہیں۔ کچھ لوگ اپنی تحریر و تقریر میں ’تحفظِ ناموسِ رسالت‘ کتاب کے حوالے دے کر، جو پہلی نوعیت کے کیس سے متعلق ہیں۔ دوسری نوعیت کے کیس پر منطبق (Apply) کر کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اِن دونوں نوعیت کے کیسوں کی تفصیلات اور قواعد و ضوابط کو آپس میں خلط ملط کرکے سادہ عوام کو اُلجھانا۔ اور کہنا کہ طاہر القادری کا 1985ء کا موقف اور تھا اور اب کیوں بدلا؟۔ علمی بددیانیتی ہے یا تجاہل عارفانہ۔ اگر یہ ’کنز العلمائ‘ دونوں نوعیت کے معاملات کو الگ لگ سمجھ لیتے تو نہ ’میرے سوالوں کا جواب دو‘ کہنے کی ضرورت پیش آتی نہ منہاج القرآن کے وابستگان کو ’مخلصانہ مشورہ‘ دینے کی حاجت ہوتی ہے۔
منہاج القرآن کے وابستگان تو ان نام نہاد محققین کی علمی اور فکری سطحیت دیکھ کر حیران بھی ہیں اور متعجب بھی۔ یہ لوگ تو منبرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بیٹھ کر کسی مختلف فیہ یا نزاعی مسئلہ پر علمی اختلاف رکھنے والے پورے کے پورے مکتبۂ فکر کو گستاخِ رسول اور کافر قرار دیتے رہتے ہیں۔ اِن کے فتوؤں پر اگر عمل شروع ہو جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون سا مسلک ہے جس پر دوسرے مسلک والوں کا کفر و شرک یا گستاخِ رسول ہونے کا فتویٰ نہیں۔ اگر فیصلہ اور سزا کی اجازت عوام کو دے دی جائے تو بچے گا کون؟ پھر قانونِ شریعت تو بازیچۂ اَطفال بن جائے گا۔ اور ان عاقبت نااندیش علماء کی طرف سے عوام کو قانون ہاتھ میں لینے کی ترغیب و تلقین سے 295-C جیسے قانون کی اِفادیت، اَہمیت اور ضرورت و موجودگی پر سوالیہ نشان پیدا ہو جائے گا۔ ان نادان دوستوں یا عقل مند حاسدین و معاندین سے عوام کو باخبر رہنا چاہیے۔ قانون تحفظِ ناموسِ رسالت (295-C) قائدِ تحریک منہاج القرآن نے ہی بنوایاتھا اور اگر ضرورت پڑی تو اس قانون کے تحفظ اور دفاع کے لیے بھی تحریک منہاج القرآن ہی میدان میں ہو گی۔ اِن شاء اﷲ۔
یہ تحریر صرف عوام کے لیے سادہ اور عام فہم اُسلوب میں لکھی گئی ہے۔ نفسِ مسئلہ کو علمی دلائل کے ساتھ سمجھنے کا ذوق رکھنے والے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’تحفظِ ناموسِ رسالت‘ کا مطالعہ اور حالیہ خطاب (خطاب سننے کے لیے نیچے عنوان پر کلک کریں)
گستاخِ رسول کون ہوتا ہے اور گستاخی کن کلمات سے ثابت ہوتی ہے؟
ملاحظہ کر لیں تو پورا مضمون واضح ہو جائے گا۔
مزید مطالعہ کے لیے یہاں کلک کریں
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پر اعتراضات کا ناقدانہ جائزہ
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو حضور تاجدارِ کائنات علیہ الصلوٰۃ و السلام کے نعلین پاک سے وابستہ رکھے اور دین کا حقیقی فہم لوگوں تک عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین